امام خمینی (رح) نے اپنی کتاب ’’شرح دعائے سحر‘‘ یا دو نسخوں کے شروع میں لکھی ہوئی عبارت کے مطابق ’’شرح دعا متعلق بہ اسحار‘‘ ۱۳۴۷ ھ میں تحریر فرمائی ہے۔ آپ اس وقت ۲۷ سال کے تھے۔ یہ آپ کی پہلی قلمی کاوش ہے۔ ۱۳۴۰ ھ میں جب آپ قم تشریف لائے اس وقت آپ جوان تھے اور آپ نے مقدمات اور سطح کے دروس کو جاری رکھا اور حکمت، ریاضی، ہیئت اور اخلاقی علوم کو حاصل کرنے سے غافل نہیں ہوئے۔ آپ نے علوم ظاہری کے علم باطنی سے امتزاج سے بھی غفلت نہیں کی۔ آپ کو عرفانی مباحث سے دلچسپی تھی، اہل بیت عصمت (ع) کی روایات اور اسلامی حکماء کی تعلیمات کی بنا پر آپ میں پختگی آئی اور آپ مختلف فنون کے ماہر دانشمند کی حیثیت سے ابھرے اس کے علاوہ آپ عظیم الشان صاحب اخلاق بھی تھے۔ دوسروں کی تربیت سے پہلے آپ نے تزکیہ نفس پر توجہ دی۔
آپ ہمیشہ قلبی و معنوی دعاؤوں اور آداب کی پابندی کرتے تھے، لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ آپ نے ایسی عرفانی کتاب کی تالیف شروع کی جس کے ذریعے آپ نے معصومین (ع) سے منقول ایک روایت کی خدمت کی اور جیسا کہ غور وفکر کرنے والے کیلئے آشکار ہوجاتا ہے کہ آپ صحیح آراء وافکار کی جمع آوری میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ لہذا قارئین دیکھیں گے کہ آپ نے مطالب مختلف افراد سے نقل کئے ہیں اور ایسے نظریئے پر تنقید کی جس کو راہ راست سے دور جانا یا جو نظریہ عظیم اکابر اور علمائے اسلام کے نظریئے سے مطابقت نہیں رکھتا ہے اور جہاں آپ نے کتاب سے ہٹ کر گہرے عرفانی مطالب بیان کئے تو یہ کہہ کر قارئین سے عذرخواہی کی ہے کہ ’’اسمائے الٰہی اور صفات ربانی کا عشق مجھ کو بحث کے اس مقام تک کھینچ لایا ہے‘‘۔
آپ نے اپنے استاد شاہ آبادی سے زیادہ مطالب نقل فرماتے ہیں اور ان کے آراء ونظریات پر خصوصی توجہ دی ہے اور یہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے آپ کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لہذا قارئین ملاحظہ کریں گے کہ اس سرگرم طالب علم نے کہ جس کے دل میں اسمائے الٰہی کی محبت راسخ ہوگئی، اپنی مراد ان کے پاس پائی اور منازل عرفانی کے سلوک اور سیر الی اﷲ کے سلسلہ میں ان کی راہ کو پسند کیا اور ان کے دروس نے آپ کو دیگر افراد کے دروس میں جانے سے روک دیا۔
شرح دعائے سحر