بعض ماہرین نے ایمانکے لیے چند صفات ذکر کی ہیں، جیسے خدا، رسالت، قیامت وغیرہ لیکن ان تمام صفات کو 'غیب پر ایمان' کے عنوان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ غیب کا مطلب ہے جسے انسانی حواس نہ سمجھ سکیں۔ قرآن کریم نے واضح طور پر بتایا ہے کہ متقیوں کی پہلی صفت غیب پر ایمان ہے اور فرماتا ہے: الم* ذلِکَ الْکِتابُ لا رَیبَ فیهِ هُدی لِلْمُتَّقینَ* الَّذینَ یؤْمِنُونَ بِالْغَیبِ وَ یقیمُونَ الصَّلاه وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ ینْفِقُونَ؛ الم، اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ متقیوں کے لیے ہدایت اور نجات کا ذریعہ ہے۔ متقی وہ ہیں جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں ....." (بقره/ 1-3)
علامہ طباطبائی نے اس آیت کی تفسیر میں غیب پر ایمان کو خدا تعالیٰ پر ایمان قرار دیا ہے کیونکہ اگلی آیت میں وحی پر ایمان اور آخرت پر ایمان کا ذکر ہوا ہے اور یہ تین چیزیں (جو کہ دین کے اصول ہیں) ہمارے حواس سے غائب ہیں۔
امام خمینی (رح) کی فکر میں متعین اصولوں میں سے ایک غیب پر ایمان، خدا کی محضر میں حاضری اور خدا پر توکل ہے۔ امام کی سیاسی سوچ اور شخصیت میں یہ اصول موجود ہے کہ ہم خدا کی محضر میں حاضر ہیں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کرنے کے پابند ہیں لیکن اس کے ساتھ نتیجہ خدا پر چھوڑ دیں۔
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
شاید تاریخ ان راستوں کا ذکر نہ کرسکے جو ایران کیلئے کھلے۔ ہماری راہنمائیاں کی گئیں بغیر اس کے کہ ہم ان کی طرف متوجہ ہوں ۔ ہم ایک کام کرنا چاہتے تھے، لیکن ہم نے دیکھا کہ ہم تو دوسرا کام انجام دے رہے ہیں اور دوسرا کام ہی وہ کام تھا جسے انجام دیا جانا چاہیے تھا۔ اس کو تاریخ میں ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان علوم کا تعلق سینوں کے ساتھ ہے۔ (صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۳۱۴)
امام خمینی نے اپنی اسلامی تحریک کے دوران اس اتار چڑھاؤ کے راستے میں ہمیشہ خدا کی مرضی اور مشیت الہی کا ذکر کرتے رہے:
یہ کام ایک انسان نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی انسانوں کا ایک گروہ اس کام کو انجام دے سکتا ہے۔ یہ کام خدا نے انجام دیا ہے۔ اس لیے جب میں نے شروع میں ہی دیکھا کہ اس قدر اتحاد قائم ہوگیا ہے، ایک ایسی چیز وجود میں آ گئی ہے جس کو کوئی وجود میں نہیں لاسکتا [بلکہ] ایک غیبی طاقت کا کام ہی ہوسکتا ہے، مجھے [اس کا] یقین ہوگیا۔ اس لیے میں نے کبھی سستی سے کام نہیں لیا، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ خدا اس کام کو انجام دے گا۔ شروع سے ہی میں نے کہا کہ اس (شاہ) کو جانا ہی ہوگا، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، وہ گیا۔ ایسا ہی ہوا۔ یہ خدا کی مشیت تھی۔ (صحیفہ امام، ج ۶، ص ۲۳۹)