اسلامی انقلاب کے استحکام میں 4/ نومبر کے واقعات کا کردار

اسلامی انقلاب کے استحکام میں 4/ نومبر کے واقعات کا کردار

13/ آبان (4/ نومبر) کو تین اہم واقعات رونما ہوئے اور ان میں سے ہر ایک واقعہ نے ملک کےاندورنی حالات پر خاص اثر ڈالا

اسلامی انقلاب کے استحکام میں 4/ نومبر کے واقعات کا کردار

 

4/ نومبر جس کی جڑیں شاہ کی حکومت اور اس کے حامیوں بالخصوص عالمی استکبار کے خلاف پرعزم اور بیدار طلباء کی جد وجہد اور بغاوت سے جڑی ہوئی ہیں؛ اس بات کی علامت ہے کہ اس باشعور اور پرعزم طبقے نے، انقلاب اسلامی کے عظیم اغراض و مقاصد کے حصول کی راہ میں، خواہ طاغوت کے دور میں ہو یا اسلامی انقلاب کی شاندار فتح کے بعد کے دور میں؛ کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

 

13/ آبان (4/ نومبر) کو تین اہم واقعات رونما ہوئے اور ان میں سے ہر ایک واقعہ نے ملک کے اندورنی حالات پر خاص اثر ڈالا۔ امام خمینی (رح) کی جلاوطنی (1964ء)؛ پہلوی حکومت کے ہاتھوں طلباء کا قتل عام (1978ء)؛ تہران میں امریکی سفارت خانے پر طالب علموں کا قبضہ (1979ء) انقلاب کی تاریخ میں اس دن کے واقعات میں سے اہم ترین واقعات ہیں۔

 

امام خمینی(رح) کی جلاوطنی

4/ نومبر 1964ء میں امام خمینی(رح) کو شاہ کی حکومت کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا اور قم سے تہران منتقل ہونے کے بعد ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ یہ جلاوطنی امام کے پہلوی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بالخصوص کیپٹالیزم بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کے بعد ہوئی۔ جلاوطنی سے 9/ دن پہلے، امام نے حضرت زہرا (س) کی ولادت کے موقع پر اپنے گھر میں منعقدہ مجلس میں کیپٹالیزم کے مفاسد اور نقصانات کو ایک تقریر میں بیان کیا۔

 

تہران ساواک کے سربراہ کرنل مولوی کی نگرانی میں ساواک افسران کے ایک گروپ نے 4/ نومبر کو فجر کے وقت امام خمینی (رح) کو گرفتار کیا اور انہیں مہرآباد ایئرپورٹ سے افق پر سورج کے طلوع ہونے سے پہلے فوجی طیارے کے ذریعے ترکی بھیج دیا گیا۔

 

امام خمینی (رح) کی جلاوطنی کے بعد، گھٹن کے ماحول کے باوجود، تہران کے بازاروں میں مظاہرے، حوزہ کی کلاسوں کی طویل تعطیل اور بین الاقوامی اداروں اور مراجع تقیلد کو درخواستیں اور خطوط بھیجنے کی صورت میں احتجاجات، ایک لہر کی طرح ظاہر ہوئی۔ امام خمینی (رح) کی جلاوطنی کے دن آیت اللہ حاج مصطفی خمینی کو بھی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا اور کچھ عرصہ بعد 3/ جنوری 1965ء کو انھیں ان کے والد کے پاس ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔

 

تہران یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلباء کا قتل عام

24/ اکتوبر 1978ء سے پہلوی حکومت کے خلاف احتجاج کے طور پر تہران کے طلباء اپنے اسکول بند کرکے تہران یونیورسٹی کی طرف بڑھتے اور یونیورسٹی میں حکومت کے خلاف نعرے لگاتے تھے۔ ان مظاہروں میں طلباء کے ساتھ عوام اور یونیورسٹی کے طلباء بھی شامل ہوجاتے تھے؛ یہاں تک کہ پہلوی حکومت کے ایجنٹوں نے احتجاج کو پھیلنے سے روکنے کے لیے 24/ اکتوبر کو انہیں تہران یونیورسٹی سے نکلنے سے روکا اور ان پر گولیاں برسائیں۔ اس حملے میں 56 افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

 

یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کی افسوسناک صوتحال اتنی بری تھی کہ جب طلباء پر فوجیوں کی براہ راست فائرنگ کی رپورٹ قومی ٹی وی پر نشر ہوئی تو وزیر سائنس نے فوراً استعفا دے دیا اور اگلے دن شریف امامی کی کابینہ بھی گر گئی جب کہ اس حکومت کی سیاسی زندگی 70/ دن سے زیادہ نہیں گزری۔ تب سے، 4/ نومبر کو "طلبہ کا دن یا اسٹوڈنٹ ڈے" کہا جاتا ہے۔

 

تہران میں امریکی سفارت خانہ پر قبضہ

4/ نومبر 1979ء کو تہران میں امریکی سفارت خانہ کی عمارت پر طلباء کے ایک گروپ نے قبضہ کر لیا۔ طلبہ کا دن مارچ کے بہانے نیز پہلے سے طے شدہ منصوبہ کی بناء پر بعض طلباء نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور سفارت خانے کے کارکنوں کو یرغمال بنا لیا۔ اس اقدام کے رد عمل میں امام خمینی نے اسے دوسرا انقلاب کہا اور پہلے انقلاب سے بڑا قرار دیا۔

ای میل کریں