جماران نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام و المسلین سید حسن خمینی بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس میں مہمانوں سے ملاقات کے دوران امام خمینی (رح) کے مرقد پر موجود تھےاور ایک تقریر میں کہا: امام خمینی (رح) کی قیادت میں انقلاب اسلامی کا ایک خواب اور ایک نتیجہ "وحدت اسلامی کے لئے کوشش" تھا۔ البتہ یہ کوشش پہلے علاقائی اور محدود پیمانہ پر بعض اہلسنت بزرگوں اور شیعہ معاشرہ میں مرجع عالی قدر حضرت آیت الله العظمی بروجردی (رح) کے ذریعہ وجود میں آئی لیکن جب ایران کا عظیم انقلاب آیا اور دنیا کی نگاہیں ایران کی طرف لگی ہوئی تھیں تو اس سلسلہ میں پیغام کا حامل ہوا اور اپنے اتحاد و یکجہتی کے پیغام سے شیعہ اور سنی دونوں فرقہ کے دلوں کو اپنی طرف مائل کیا اور "اسلامی بیداری" پیدا ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا: فلسطین کا مسئلہ انقلاب ایران سے پہلے ایک عربی تعصب اور کمیونسٹ فکر کا حامل تھا۔ لیکن اسلامی انقلاب نے اسے ایک "اسلامی" مسئلہ میں بدل دیا۔ اگر اس سے پہلے فلسطین کے آزادی بخش ادارہ عربی تعصب کے عنوان سے مانا جارہا تھا لیکن انقلاب کے بعد مقاومتی تحریک (حماس) کے نام سے جانا جانے لگا اور فلسطین کا مسئلہ انقلاب کے خوابوں میں سے ایک خواب بن گیا۔
سید حسن خمینی نے گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس پر بنیاد رکھی گئی کہ جہاں کہیں بھی "یا للمسلین" کی فریاد بلند ہو تو اس کا دفاع کیا جائے۔ اسی وجہ سے ایران جو اخراجات غیر شیعہ مسلمانوں کی حمایت خصوصا فلسطینی اقوام جہاں اہلسنت برادارن رہتے ہیں کی نصرت میں لگاتا ہے، وہ شیعہ کے دفاع میں خرچ ہونے والی رقومات سے کہیں زیادہ ہے۔ جب طے ہوا کہ روس افغانستان پر حملہ کرے گا۔ ایران کے انقلاب نے جس طاقت کا روسی سامراج کے مقابلہ میں استعمال کیا وہ ایک "اسلامی" ملک کے لئے تھی اور اس ملک کے اندر موجود شیعہ اور سنی کے عنوان سے نہیں تھی مثال کے طور پر ایران کا بوسنی اور کوزوو کے مسئلہ میں شریک ہونا جو رہبر معظم کے دور میں عملی ہوا تھا، اس میں مذہبی رنگ و بو نہیں تھی بلکہ اسلامی تحریک تھی۔
انہوں نے اس سلسلہ میں مزید کہا: ہم نے خدا کے لطف و کرم سے سخت ترین دور گذارے ہیں اور جب "داعش" نامی واقعہ رونما ہوا جو اسلام کے نام پر انسانوں کا سرکاٹ رہا تھا اور ڈبو رہا تھا اور جلا رہا تھا اور پیغمبر (ص) کی توہین کا سبب تھا لیکن حق سے انکار نہیں کرنا چاہیئے کہ عالم اسلام کے دانشوروں نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس دور کو گذارلیا۔
سید حسن نے زور دیا کہ اس وقت ہماری ذمہ داری گفتگو ہے: ہم علمائے دین کے عنوان سے خواہ علمائے دین یا دیگر حدود کے دانشوروں کے عنوان سے اس کا راہ حل صرف ایک دوسرے سے گفتگو ہے۔ ہم اگر اس اجلاس کو اہمیت دیتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ یہ گفتگو کی راہ ہموار کرے گا۔
یادگار امام نے وضاحت کیا کہ عالم اسلام کی سب سے پہلی مشکل کینسر کا غده، صہیونسٹ حکومت ہے اور دوسری مشکل عالم اسلام کا زمین گیر درد اور وہ جنگیں ہین جو کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوئی هیں: ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ کوئی بھی ملک، دوسرے ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے یا اس کا بائیکاٹ کرنے کی توانائی نهیں رکھتا بلکہ آپس میں مل بیٹھ کر گفتگو کرنا چاہیئے۔
انہوں نے گفتگو کی دوسری شرط (برابر کا موقف) کو جانا ہے اور زور دیا کہ: گفتگو میں تفوق طلبی کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ اگر کسی کے مقدسات اور محترمات کی توہین ہو تو یہ گفتگو کا خاتمہ ہے لہذا سب اس سے اجتناب کریں۔
سید حسن نے گفتگو کی تیسری شرط (استمرار) بتائی اور یاد دہائی کرائی کہ یہ کام سید جمال الدین اسد آبادی کے دور سے شروع ہوا ہے اور اگر ہم سوچتے ہیں کہ چند نسلوں کے بعد نتیجہ خیز ہوگا تو ہماری غلط فہمی ہے۔ منحرف اور بہکے ہوئے انسان بہت ہیں اور ممکن ہے ہمارے درمیان بھی ہوں۔ گفتگو کو جاری رکھنے کے لئے متعدد اجلاس اور جلسے کئے جاسکتے ہیں کیونکہ ہم دائمی گفتگو، برابری کے جذبہ، نشاط اور تازگی وہ بھی شیریں بیانی اور ادب کے ساتھ گفتگو کریں نہ دوسرے کو خاموش کرنے کے لئے بلکہ مشترک مسائل کو حل کرنے کے لئے ورنہ کسی نتیجہ پر نہیں پہونچیں گے۔