بادہ ہوشیاری
دیوان امام خمینی (رح)
لے جام، اور یہ جامہ زہد و ریا اتار
محراب کردے شیخ ریائی کو واگذار
جا پیر میکدہ کو سنادے ہمارا حال
اک جام دے کے دور کرے سر سے یہ خمار
کشکول فقر ہم کوسر افتخار ہے
اے یار دلفریب! بڑھا اور افتخار
ہم ریزہ خواہ صحبت رند فقیر ہیں
اک غمزہ سے نواز دل پیر جیرہ خوار
ذکر رقیب رہر ہے، یہ ذکر بند کر
یہ زہر کیوں نہ ہو کہ ہے یہ سانپ گنڈے دار
بوس و کنار یار نے بخشی مجھے حیات
اب ہجر میں نصیب نہیں بوسہ و کنار
دے دو یہ پیر میکدہ کو انتباہ غم
ساقی نے جام دے کے کیا مجھ کو ہوشیار