کس راستہ پہ چل پڑے یہ عاشقان زار
ہے راہ بے کنار، کہاں رکھ رہے ہیں بار
جائیں یہ جس طرف سر کوئے نگار ہے
رکھ دیں جہاں بھی بار، وہیں ہے در نگار
ساقی کو ہرجگہ نہیں پہچانتے ہیں یہ
یہ جام لیں ، مگر جو بڑھے خود ہی دست یار
ساقی کے عشق رخ میں یہ جشن و سرور ہے
ہے اس کے ہجر وصل میں سب زاری و نزار
کھلتے ہیں نوررخ سے اسی کے چمن میں گل
ہے یاد سرو قد میں یہ سب خندہ بہار
دیدار رخ حجاب کے ہوتے کہاں نصیب؟
بارے اٹھا نقاب، دکھا روئے گلعذار