رپورٹ: میثم عابدی
1988ء میں برطانیہ میں مقیم ایک بھارتی نژاد سلمان رشدی نے رسول اکرمؐ کی توہین پر مبنی ایک کتاب تحریر کی، جس میں رسول اکرمؐ کی توہین کے علاوہ یہ ہرزہ سرائی بھی کی گئی کہ قرآن مجید اللہ کی طرف سے حضرت محمد مصطفیٰؐ پر نازل نہیں ہوا بلکہ یہ خود انکے اپنے افکار و خیالات کا مجموعہ ہے، سلمان رشدی کی اس کتاب کے سامنے آتے ہی تمام عالم اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ 26 ستمبر 1988ء کو شیطانی آیات نامی ناول نشر ہونے پر مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کی طرف سے بہت سارے اعتراضات ہوئے جبکہ بھارت، پاکستان، اٹلی، کینیڈا اور مصر میں سلمان رشدی اور اس کے ناول کے خلاف مظاہرے ہوئے اور اس کتاب کو بیچنے والی بعض دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ اسی طرح ویٹیکن کے سرکاری اخبار میں سلمان رشدی اور اس کی کتاب کی مذمت کی گئی۔
افرام شابیرا اور اشکنازی یہودی خاخام نے اسرائیل میں اس کتاب کی نشر و اشاعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ 14 فروری 1989ء کو ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ العظمیٰ امام سید روح اللہ خمینیؒ نے اس کتاب کی مذمت کی اور اس کے لکھنے والے کو پھانسی کا مستحق قرار دیا اور سلمان رشدی کو قتل کرنے میں اگر کسی کی جان چلی جائے تو اسے شہید کہا جبکہ دوسرے پیغام میں سلمان رشدی کی توبہ کو بھی غیر قابل قبول قرار دیا۔ امام خمینیؒ کے فتوے کے بعد سلمان رشدی مخفی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگیا اور مسلمانوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچانے کے بعد پھر معذرت خواہی بھی اس کے پھانسی کے حکم سے جان چھڑانے میں کارآمد ثابت نہیں ہوئی۔
امام خمینیؒ کا سلمان رشدی کیخلاف قتل کا فتوی
بسمہ تعالیٰ
انا للہ و انا اليہ راجعون
پورے عالم کے غیور مسلمانوں کو اعلان کرتا ہوں کہ کتاب (شیطانی آیات) جو اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف تدوین اور شائع ہوئی ہے، کے مؤلف سمیت اسکے متن اور مضمون سے آگاہ و مطلع ناشرین واجب القتل ہیں۔ میں تمام غیور مسلمانوں سے چاہتا ہوں کہ ان افراد کو جہاں بھی پائیں معدوم کر دیں، تاکہ اسکے بعد کوئی بھی مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی جرأت نہ کرسکے اور جو بھی اس راہ میں مارا جائے، وہ شہید ہے، انشاءاللہ اگر کتاب کا مؤلف کسی کی دسترس میں ہے، مگر وہ اسکو قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اسکا فرض ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو بتا دے، تاکہ وہ اپنے عمل کی سزا پائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امام خمینیؒ کی طرف سے سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کے فتوے کے بعد سلمان رشدی اپنے گھرانے سے دور مخفی زندگی بسر کرنے لگا۔ امام خمینی نے 8 رجب 1409ھ بمطابق 14 فروری 1989ء کو ایک پیغام میں شیطانی آیات نامی کتاب کے مصنف کو اسلام، پیغمبر اکرمؐ اور قرآن کے خلاف کتاب لکھنے اور شائع کرنے پر واجب القتل قرار دیا۔ امام خمینیؒ نے کتاب کے مضمون کے بارے میں آگاہی رکھتے ہوئے کتاب کو چھاپنے والے کے خلاف بھی پھانسی کا حکم سنایا اور غیرت مند مسلمانوں سے درخواست کی کہ یہ لوگ جہاں کہیں ملیں، ان کا سر قلم کر دو، تاکہ کوئی اور اس طرح سے اسلامی مقدسات کی توہین کی جسارت نہ کرسکے۔
اسی سال 18 فروری کو امام خمینیؒ کے دفتر سے ایک بیان جاری ہوا، جس میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے امام خمینیؒ کا حکم سلمان رشدی کے توبہ کرنے پر لغو ہونے کی خبر کی تکذیب کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ سلمان رشدی اگر توبہ بھی کرے اور زمانے کا سب سے بڑا زاہد بھی بنے، تب بھی ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جانی اور مالی تمام کوششوں کو بروے کار لاتے ہوئے اسے واصل جہنم کریں۔ اس بیانیہ کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو سلمان رشدی کی جگہ کا پتہ چلے اور اسے قتل کرے تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس شخص کو انعام اور اجرت دیں۔ امام خمینی کا سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کے حکم پر مختلف ممالک میں وسیع پیمانے پر استقبال کیا گیا۔
پاکستان، ایران، لبنان، انگلستان کے مسلمانوں اور ترکی میں اس حکم کی حمایت سامنے آئی۔ اسی طرح لبنان کے 21 سالہ جوان مصطفیٰ محمود مازح نے امام خمینیؒ کے اس حکم کے بعد سلمان رشدی کو قتل کرنے کی کوشش کی اور اپنے بدن پر دھماکہ خیز مواد باندھ کر اس ہوٹل میں گیا، جہاں سلمان رشدی تھا لیکن سلمان رشدی تک پہنچنے سے پہلے دھماکہ ہوا اور خود جاں بحق گیا۔ امام خمینیؒ کی طرف سے سلمان رشدی کے خلاف قتل کا حکم سامنے آنے کے بعد سلمان رشدی مخفی زندگی گزارنے پر مجبور ہوا، یہاں تک کہ گھر والوں سے رابطہ بھی اس حکم کی وجہ سے متاثر ہوا، یہاں تک کہ لوگوں کو غصہ دلانے پر معذرت خواہی بھی کسی کام نہ آسکی۔
دوسری جانب مکہ میں رابطۃ العالم الاسلامی کے مرکز نے شیطانی آیات کو کفر پر مشتمل ایک کتاب قرار دیا، لیکن سلمان رشدی کے پھانسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ اسی طرح جامع الازہر کے ہیئت فتویٰ کے صدر عبداللہ مرشدی نے بھی ایک بیانیے میں آیات شیطانی نامی کتاب کو اسلامی اصول اور ضوابط کے منافی جانا۔ شیخ محمد سید طنطاوی نے سلمان رشدی کی کتاب کے مقابلے میں بہترین راستہ یہ ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے اور اس کے نقد میں لکھا جائے، تاکہ اس کی غلطیوں کا پتہ چل سکے۔
تاہم اس جانب امام خمینیؒ کی طرف سے شیطانی آیات کے مصنف سلمان رشدی کے خلاف قتل کا حکم آنے کے بعد 15 خرداد فاؤنڈیشن نے سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کو دو میلین ڈالر انعام کا اعلان کیا۔ 15 خرداد فاؤنڈیشن کے سربراہ اور نمائندہ ولی فقیہ حسن صانعی نے ستمبر 2012ء میں پیغمبر اکرمؐ کے خلاف بننے والی توہین آمیز فلم کو محکوم کرنے کے ساتھ ساتھ سلمان رشدی کے سر کی قیمت کو بڑھا کر 33 لاکھ ڈالر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلمان رشدی کی پھانسی سے اسلام اور پیغمبر اکرمؐ کے خلاف بننے والے کارٹون، مقالات اور فلمیں رک سکتی ہیں۔