در ساقی پہ کبھی دست فشاں دیکھے گا
تو مجھے مثل قلندر منشاں دیکھے گا
ہوں گا بیخود اسی ساغر سے تو مجھ کو بیہوش
پھر ہر اک مسخرہ پیرو جواں دیکھے گا
سایہ سرو رواں ہی میں رہوں گا میں سدا
مکتب و دیر میں تو مجھ کو کہاں دیکھے گا
میں اقامت گہہ ہستی سے چلا جاؤں گا
تو مجھے سوئے عدم رخت کشاں دیکھے گا
خرقہ فقر کو اک بار میں تہ کردوں گا
ننگ اس خرقہ کہنہ کا عیاں دیکھے گا
اسی عاشق کے میں ساغر سے پیوں گا جب مے
تو مجھے فارغ ملک دو جہاں دیکھے گا