حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دہلی/ انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت آیت اللہ امام خمینیکی33 ویںبرسی کے موقع پر مختلف مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں نے بیک آواز ہوکر امت مسلمہ سے اپیل کی کہ امام خمینی کے آفاقی پیغام کو سمجھا جائے اور متحد و متفق ہوکر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آج امت مسلمہ اغیار کے محاصرے میں ہے،ایسے حالات میں امام خمینی کے دکھائے ہوئے راستے پرچل کر حصار کو توڑا جا سکتا ہے۔یہ آواز آج امام خمینی کی برسی کی مناسبت سے ایران کلچر ہاؤس میں منعقد 'یادامام'میں اٹھی جس کا آغاز قاری محمد عثمان قاسمی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور نظامت کے فرائض مولانا مہدی باقر خان نے انجام دیئے۔
بزم کو خطاب کرتے ہوئے ایران کے سفیر ڈاکٹر علی چگینی نے کہاکہ امام خمینی کا خطاب صرف دائرۂ اسلام تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام مستضعفین کی حمایت کی۔انہوں نے کہا کہ بانی انقلاب نے جس طریقے سے دنیاکے تمام کمزور، پسماندہ اور استحصال کے شکار لوگوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا تمام حم و غم وہ بشریت ہے اور وہ امت اسلام ہے جو کسی قسم کے ظلم کا شکار ہے اسے اس سے بچایا جائے۔امام خمینی نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور ان کے اس جذبے کو اپنے عمل میں متجلی کیا اور لوگوں نے اسے محسوس کیا کہ جیسا پیغمبرۖ نے اپنی تعلیمات میں سکھایا تھا،انہوں نے ویسے ہی کرکے دکھایا ہے۔ ڈاکٹر چگینی نے کہا کہ امام خمینی کی سیاست دنیا کے دیگر سیاسی شعبدہ بازوں سے بہت مختلف تھی۔انہوں نے اپنے مفاد کے لئے بلکہ ہمیشہ خدمت کے جذبے کے تحت سیاست کی۔
نمائندہ ولایت فقیہ ہندوستان حجت الاسلام والمسلمین مہدی مہدوی پور نے اپنے خطاب میں کہا کہ امام خمینی کو دھمکیوں کو مواقع میں بدلنے کی مہارت حاصل تھی اور دھمکیوں کو کبھی بھی انہوں نے اس طرح سے نوٹس میں نہیں لیا جس کا کوئی اثر ہوتا بلکہ بعد میں اس کے بہت تعمیری اثرات مرتب ہوئے۔انہوں نے کہاکہ پابندیوں اور تحریمات کے باعث ہی ایران اور وہاں کا نظام اور سیاسی قیادت اس بات کو سوچنے پر مجبور ہوئی کہ ہمیں خودہی بنانا ہے اور اپنے پروڈکٹ دنیا کے سامنے پیش کرکے خودہی ہمیں آگے بڑھناہے تاکہ ہمارا ملک خود کفاء ہوسکے اور اپنے طور پر ہم اپنے ملک کو آگے لے جاسکیں۔ آقای مہدوی پور نے کہا کہ ایران نے گزشتہ دہائیوں میں انہیں پابندیوںکی وجہ سے 100 گنا زیادہ ترقی کی ہے اور ملک کواستحکام حاصل ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ امام خمینی کی نظرمیں اتحاد بین المسلمین وقتی طور پرمحض کوئی سیاسی حربہ نہیں تھا بلکہ مستقل لائحہ عمل تھاجس کی وجہ سے اسلامی انقلاب صرف ایران تک محدودنہیںرہابلکہ آفاقی نظریئے میں تبدیل ہوگیا۔
ایران کلچر ہائوس کے کلچر کونسلر ڈاکٹر محمد علی ربانی نے امام خمینی کے سیاسی اور اخلاقی نقطہ نظر کوپیش کرتے ہوئے کہا کہ امام مرحوم ایک فقیہ اور عارف انسان ہونے کے ساتھ انتہائی باوثیق سیاستدان تھے۔ ڈاکٹرربانی نے کہاکہ امام خمینی نے اپنے نقطہ نظرسے جس سیاست اوراخلاق کے حسین امتزاج کو عملی کارناموںسے ثابت کیا اسے دنیانے دیکھا اور اس کے اثرات مرتب ہوتے ہوئے پوری کائنات نے محسوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی کا ماننا تھاکہ اخلاق دینی اور الٰٰہی نقطہ نظر سے ایک ذمہ داری ہے جوہماری گردن پر عائد ہوتی ہے اس لئے ہمیں یہ کوشش کرناچاہئے کہ ایک ایسی حکومت وجودمیںآئے جس کی باگ ڈورفقیہ اور فلسفی انسان کے ہاتھ میں ہوتاکہ معاشرے میںاسلام کی اقداراور افکار کا تحفظ ہوسکے۔
مفتی افروز عالم قاسمی نے شاتم رسولۖ سلمان رشدی کے حوالے امام خمینی کے اعلان کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ ملعون کے خلاف ایران کی سرزمین سے اٹھنے والی وہ آوازآج تک ہمارے لئے مثال اورنمونہ ہے اسی طرح آج کے دورمیں آیت للہ خمینی کے دکھائے ہوئے راستے پرچل کر ہم گستاخان رسولۖ کوسبق سکھاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ باطل طاقتیں اپنے بہت سے اختلاف کے باوجود اگر مشترک چیزوںکے پیش نظرجوکہ ان کے مابین دشمنی اسلام ہی ایک واحدمشترک نقطہ نظرہے، ایک ہوسکتے ہیںتوملت اسلامیہ بھی اپنی تمام تر بنیادی چیزوںکے پیش نظرجس کاتعلق دین سے ہے، متحدہوسکتے ہیں اور مل کر ان مسائل کا سامنا کیا جاسکتا ہے۔
معروف نقاد ڈاکٹر تقی علی عابدی نے ادبی مشترکات کے ساتھ ساتھ امام خمینی کے عرفانی اشعارکے فنی محاسن کاذکرتے ہوئے انتہائی تعمیری نکات کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد امام خمینی کا پیغام ہے اور امام خمینی کی جومخالفت ہوئی وہ فلسطین کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے اتحاد کا پیغام دیااس لیے کہ کچھ لوگ قوم کو متحد نہیں دیکھناچاہتے تھے۔انہوں نے کہاکہ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں وہ عیسائیت ہو یا ہندوازم ہویاکوئی دیگران فرقوںمیں 20 یا 25 فیصدکاکانسیپٹ ہے ،مسلمان صرف واحدفرقہ ہے جس میں اکثریت 80فیصدہے اوراقلیت 20 فیصدہے۔ایسے میں آج مسلمان اکثریت کو آگے آنا پڑے گاتاکہ ہم اتحادکی طرف بڑھیں خودبخوددوقدم کم ہوجائیں گے۔
معروف خطیب مولانا نعیم عباس نوگانوی نے بانی انقلاب کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ مجھے امام خمینی سے محبت نہیں بلکہ عشق ہے۔مولانا موصوف نے کہاکہ امام خمینی صرف ایک عالم نہیں بلکہ کردار ساز تھے،ان کے اندر ایک فکرتھی اورچاہتے تھے کہ بہت سادگی کے ساتھ اسلام کے پیغام کوسمجھ لیا جائے اوراسلام میںجوحرارت ہے وہ لوگوںتک پہنچ جائے۔ انہوں نے کہاکہ امام راحل کے اقوال حرارت سے بھرے پڑے ہیںجوآج کے دورکے لئے مشعل راہ ہیں۔ ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے امام خمینی کے نظریات اوران کے افکار پرتفصیل سے گفتگوکی۔انہوں نے کہاکہ امام خمینی انقلاب اسلامی کی شکل میں جوکارنامہ انجام دیا ہے وہ نہایت غیر معمولی ہے۔
مولانا ندوی نے کہا کہ پوری کائنات میں انقلاب اسلامی کے فیوض اور برکات کومحسوس کیاجائے اورامت مسلمہ اس انقلاب کواپنی عظمت رفتہ کی بازیادی کاسبب محسوس کرے۔
مولانا عالم رضوی نے امام خمینی کے حوالے سے تقریباً33سال قبل لکھی نظم پیش کی جسے کافی دادورحسین سے نوازاگیا۔پروگرام کے اختتام پرامت مسلمہ میں اتحاد کی دعاکی گئی ۔اس موقع پرکثیر تعدادمیںمختلف مکاتب فکرکے سامعین کے ساتھ ساتھ علماء اور دانشورحضرات موجودتھے۔