امام خمینی

امام خمینی(ره) اور دیگر علماء و مراجع كے درمیان بنیادی ترین فرق

حضرت آیت الله جوادی آملی(حفظه الله) فرماتے ہیں:یہ مرحوم خواجه نصیر الدین طوسی کے جملات ہیں جو انھوں نے مرحوم بوعلی سینا کی کتاب "الاشارت" کی شرح بیان کرتے ہوئے فرمائے ہیں-مرحوم بوعلی سینا "کتاب الاشارات" میں عارفین کے مقامات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

امام خمینی(ره) اور دیگر علماء و مراجع كے درمیان بنیادی ترین فرق

 حضرت آیت الله جوادی آملی(حفظه الله) فرماتے ہیں:یہ مرحوم خواجه نصیر الدین طوسی کے جملات ہیں جو انھوں نے مرحوم بوعلی سینا کی کتاب "الاشارت" کی شرح بیان کرتے ہوئے فرمائے ہیں-مرحوم بوعلی سینا "کتاب الاشارات" میں عارفین کے مقامات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

حشٌ بشٌ بسّامٌ وَ هُوَ شُجاع وَ کَیفَ لا وَ هُوَ بِمُعزلِ عَنْ تَقیَّهِ المَوت .

'عارف، موت کے ڈر سے تقیہ نہیں کرتا'

امام خمینی(رضوان الله تعالی علیه) کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ تھی کہ

انہیں موت کا بالکل ڈر نہیں تھا ؛ کیونکہ وہ  اختیاری اور ارادی موت[یعنی غضب اور شھوت کی موت]  کو تجربہ کر چکے تھے- جو شخص ارادی موت کا مزه چکھ چُکا ہو اور موت سے نہ ڈرتا ہو، تو ایسے انسان کے لئے تمام مسائل حل ہیں -اور اس کے لئے کسی قسم کی کوئی دنیوی مشکل، مشکل نہیں رہتی۔

اسی وجہ سے 15خرداد[5th June1964] کے حادثہ کے بعد، جب ان کو ملک سے جلا وطن کیا جارہا تھا تو فرمایا کہ: وه[سپاہی جو مجھ (امام)خمینی کو لے جا رہے تھے] ڈر رہے تھے لیکن میرے اندر  کسی قسم کا کوئی خوف و ڈر نہیں تھا۔

اسی طرح 25شوال کے حادثہ میں جب پہلوی حکومت نے بعض طلاب کو زخمی اور بعض کو شہید تک کرڈالا  تب بھی بہت سارے گھبرا  گئے اور کہنے لگے:

آج تقیہ کا زمانہ ہے اور خاموش بیٹھ گئے

لیکن امام  خمینی   نے اس حادثہ کے اگلے ہی دن پہلوی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :"تمہارے ظلم  نے مغولوں کو بھی دو ہاتھ پیچھے چھور دیا"پس جو موت سے نہ ڈرے، اس میں ایسی خصوصیات ہوتی ہیں:

 اَلْعارِفُ شُجاعٌ‌ کَیفَ لا وَ هُوَ بِمُعزِلٍ عَنْ تَقیَّهِ المَوت.

جو طبیعی موت سے نہ ڈرے (جبکہ وه اس سے اعلی موت یعنی ارادی موت کو درک کر چکا ہے)اورخواہشات و  ہوای نفس کے پیچھے  نہیں چلتا بلکہ وہ  ولایت کے  مدار پر حرکت کرتا ہے

اور موت سے بالکل نہیں ڈرتا،جب موت سے نہ ڈرے تو وه ایسا ہی بنے گا-دیگر علماء کیلیے ذمہ داری کی انجام دہی میں واحد رکاوٹ یہی موت کا ڈر تھا

میں(آیت الله جوادی آملی) اُنہیں تحریک انقلاب کے ایام میں  اپنے اساتید میں سے ایک  مرجع تقلید استاد کے پاس گیا تو دیکھا کہ وه مرجع تقلید، مرحوم علامہ مجلسی(رہ) کی بحارالانوار کو کھولے بیٹھے ہیں اور اس میں "تقیہ" کی بحث کا مطالعہ فرما رہے ہیں

اگر چہ وہ چاہتے تو  وه جہاد اور قیام اور فداکاری کی کوئی بحث بیان کرسکتے تھے لیکن تقیہ کی سوچ  اس میں رکاوٹ  تھی۔جبکہ امام  خمینی(رہ) ھمہ وقت جہاد کی بات کر رہے تھےان کا ھمّ و غم جہاد تھا اور جہاد کی تڑپ ان کے دل میں تھی-

ترجمہ و تحقیق محمد باقر مھدوی

ای میل کریں