امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے مختلف پہلو

امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے مختلف پہلو

حضرت امام خمینی قدس سرہ اللہ کے عبد صالح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے کلمہ گو اور پیروکار ، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے حقیقی محب بلکہ شیعہ تھے۔ آپ نابغہ روزگار تھے، عالم اسلام کی بے نظیر اور بے مثل عظیم شخصیت تھے بلکہ ہیں ۔ کیوں کہ جسم کی موت سے انکا خاتمہ ہوتا ہے جنکی روح مردہ ہوتی ہے لیکن جنکی روح پاکیزہ ہوتی ہے جسم کی موت انکا خاتمہ نہیں بلکہ انکا پرندہ روح قفس جسم سے آزاد ہو کر آفاق پر چھا جاتا ہے۔

امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے مختلف پہلو

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

امام خمینی کا نام نامی اسم گرامی سید روح اللہ موسوی تھا ایران شہر خمین کی نسبت کے سبب آپ کو دنیا نے خمینی کے نام سے جانا۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو یہ خمینی خمین سے نہیں بلکہ (غدیر) خم سے ہے۔ کیوں کہ آپ نے ایک ایسا عادلانہ نظام قائم کیا اور ایک ایسی عدل و انصاف والی حکومت کی بنیاد رکھی جسمیں غدیری تقاضوں کو پورا کرنے کا عزم ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ جس حکومت کی آپ نے بنیاد رکھی وہ علوی نظام عدل کا آئینہ ہے لیکن قیام عدل کی کوشش ضرور ہے۔

ظاہر ہے جب ہر جانب انسانیت دشمن عالمی استعمار کے پنجے گڑے ہوں، مظلوموں کو پامال کیا جا رہا ہو، کمزوروں کو اور کمزور کیا جا رہا ہو، حتیٰ بنام اسلام بننے والی حکومتیں ہوں یا ملک اس میں بھی اسلام تو دور انسانیت کا نام و نشان نہ ہو، کوئی جمہوریت کے نام پر ذات پات، رنگ و نسل کا تعصب پروان چڑھا ہو تو کہیں نسلی بادشاہت کو رواج دے کر حکومت کی جا رہی ہو۔ ایسے میں جب ہر جانب انسانیت سسک رہی ہو اور آدمیت کا کلیجہ ظلم و ستم سے چھلنی ہو تو فقیہ عادل کی حکومت بہرحال دیگر تمام حکومتی نظام سے بہتر اور انسانیت کے لئے نجات بخش اور نسل حاضر و آیندہ کے لئے امن کی نوید ہے۔

امام خمینی قدس سرہ نے نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی انسانیت کو کچلا جا رہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھائی، یوم قدس کا اعلان اسی انسانیت دوستی کا ایک نمایاں نمونہ ہے۔ یہ آپ کا اللہ پر توکل و اخلاص اور حکمت عملی ہی تھی کہ ڈھائی ہزار سالہ نظام شہنشانیت کا خاتمہ ہوا اور فقیہ عادل کی قیادت والی حکومت قائم ہوئی جو غدیری طرز قیادت سے ہماہنگ ، جس کے قیام میں کربلا سے درس لیتے ہوئے قربانیاں پیش کی گئیں تا کہ دنیا کو عصر غیبت میں انتظار کے عملی مفہوم اور تقاضہ کو سمجھایا جا سکے۔

اگر ہم سیرت ائمہ اطہار علیہم السلام کی روشنی میں رہبر کبیر انقلاب امام خمینی قدس سرہ کی پاکیزہ حیات و کردار پر نظر کریں تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ آپ نے معصومین علیہم السلام کی اطاعت محض میں زندگی بسر کی ، جہاں آپ ہر روز پابندی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے حتیٰ زندگی کے ان آخری ایام میں جب بیماری نے شدت اختیار کر لی تھی تب بھی قرآن کریم کی تلاوت آپ سے قضا نہ ہوئی اسی طرح احکام قرآن کی پابندی بھی آپ کا امتیاز ہے۔ آپ صرف زبانی علیؑ علیؑ ، مولاؑ مولاؑ نہیں کرتے تھے بلکہ مولا علی ؑ کی سیرت پر عمل آپ کی نمایاں خصوصیت تھی۔ ظاہر ہے جس کی زندگی اور کارنامے قرآن و اہلبیت ؑ سے ہماہنگ ہوں وہ نہ صرف خود ہدایت یافتہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کے لئے بھی چراغ ہدایت بن جاتا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ہمارے عظیم رہبر اور پیشوا حضرت امام خمینی قدس سرہ اللہ کے عبد صالح، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے کلمہ گو اور پیروکار ، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے حقیقی محب بلکہ شیعہ تھے۔ آپ نابغہ روزگار تھے، عالم اسلام کی بے نظیر اور بے مثل عظیم شخصیت تھے بلکہ ہیں ۔ کیوں کہ جسم کی موت سے انکا خاتمہ ہوتا ہے جنکی روح مردہ ہوتی ہے لیکن جنکی روح پاکیزہ ہوتی ہے جسم کی موت انکا خاتمہ نہیں بلکہ انکا پرندہ روح قفس جسم سے آزاد ہو کر آفاق پر چھا جاتا ہے۔

اولاد سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، لہذا انسان اپنی اولاد کی محبت میں کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا ہے۔ بلکہ بعض تو ایسے خود غرض ہمیں نظر آتے ہیں جو نہیں چاہتے کہ انکی اولاد کا پسینہ بہے چاہے کسی کا خون ہی کیوں نہ بہہ جائے۔ لیکن جسکے دل میں اولاد سے زیادہ خدا کی محبت ہوتی ہے وہ اسی اولاد کو راہ خدا میں قربان کر کے بارگاہ معبود میں شکر کا سجدہ کرتا ہے کیوں کہ وہ حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ یہ اولاد امانت خدا تھی جسے ہم نے ادا کر دیا، امانت کی ادائیگی پر شکر ہوتا ہے رنج نہیں ۔

اگر ہم اس حوالے سے اپنے عظیم رہبر امام خمینی ؒ کی زندگی پر نظر کریں تو ہمیں یہی ملے گا کہ دنیا میں قیادت کرنے والے اپنی اولاد اور گھر والوں کو ہر خطرے سے ہمیشہ دور رکھتے ہیں ، انہیں بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں تا کہ ملک کی حکومت اور اس کے کارندے انہیں پریشان نہ کریں ۔ لیکن اس کے برخلاف جو الہی رہبر ہوتے ہیں وہ دوسروں سے پہلے اپنی اولاد کی قربانی پیش کرتے ہیں ۔تاریخ کربلا میں مرقوم ہے کہ جب لشکر یزید نے آغاز جنگ کیا تو حجت باری ولی الہی حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت علی اکبر علیہ السلام سے فرمایا: ’’اے میرے بیٹے علی اکبر! (جنگ کے لئے) آگے بڑھو۔ ‘‘ کیوں کہ امامؑ عالی مقام چاہتے تھے کہ دوسروں سے پہلے میرا بیٹا راہ خدا میں قربان ہو جائے۔ امام خمینی ؒ نے فرمایا: ’’ہمارے پاس جو کچھ ہے کربلا سے ہے‘‘ آپ نے درس انقلاب کربلا سے لیا تھا، قربانیوں کا یہ حوصلہ آپ کو کربلا سے ملا تھا ، لہذا انقلابی تحریک کے دوران جب پہلوی حکومت کے ظلم و ستم کا رخ آپ کی جانب تھا ، آپ نے اپنے کنبہ کو بیرون ملک منتقل نہیں کیا بلکہ آپ کے بیوی بچے اسی ایران میں رہے اور مسلسل آزمائشوں اور امتحانات سے گذرتے رہے۔ نجف اشرف عراق میں آپ کے عزیز فرزند آیۃ اللہ مصطفیٰ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت ہوئی ۔ لیکن جوان بیٹے کی شہادت اس کربلا ئی اور عاشوارئی (امام خمینیؒ) کے حوصلوں کو نہ پست کر سکی اور نہ ہی ثابت قدمی میں اثرانداز ہو سکی کہ بیٹے کی شہادت پر زبان پر کلمہ شکر جاری تھا ۔ یہاں تک کہ اپنے جوان پر گریہ بھی نہیں کیا بلکہ روئے تو اپنے آقا امام حسین علیہ السلام کے جوان جناب علی اکبر علیہ السلام کے ذکر مصیبت پر ہی روئے۔

جو حوصلہ انقلاب سے قبل تھا وہی حوصلہ ، وہی انداز انقلاب کی کامیابی اور قیام حکومت کے بعد بھی رہا کہ اسی جوان شہید بیٹے (آیۃ اللہ سید مصطفیٰ خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کے فرزند نے جب راہ حق سے انحراف کیا اور آپ سے اسکی شکایت کی گئی تو فرمایا: ’’اگر اب ایسا کرے تو اسے گولی مار دی جائے۔‘‘ اسی طرح جنگ تحمیلی (ایران و عراق جنگ) کے دوران آپ کے نواسہ جناب مسیح صاحب جنگ سے واپس آئے تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’تم شہید نہیں ہوئے؟‘‘

یہ مذاق نہیں بلکہ اس کردار کے لئے بڑا حوصلہ اور بڑی ہمت درکار ہے اور وہی یہ کردار ادا کر سکتا ہے جس نے کربلا سے درس لیا ہو۔ یہاں یہ بات بھی ذکر کر دینا مناسب ہے کہ اسی جنگ میں جب علمبردار انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای دام ظلہ الوارف جو اس وقت ایران اسلامی کے صدر جمہوریہ تھے، کے فرزند جنگ کے لئے جارہے تو باپ نے بیٹے کو نصیحت کی اپنے مجاہدوں والے کارڈ پر فیملی نام ’’خامنہ ای‘‘ کے بجائے ’’حسینی‘‘ لکھوانا تا کہ میدان جنگ میں ایک عام مجاہد کی طرح جنگ کرنا نہ کہ صدر جمہوریہ کے فرزند کے عنوان سے سہولتیں حاصل کرنا۔

ظاہر ہے اس مختصر تحریر میں عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کے اس بے نظیر عظیم شخصیت کااحاطہ ممکن نہیں ۔ کیوں کہ اگر لکھا جائے تو کئی جلدیں درکار ہوں گی پھر بھی حق ادا نہ ہو گا۔ لہذا ہم اپنے عرائض کو ختم کرتے ہیں کہ

اے رہبر کبیر ! دورود و سلام ہو آپ کی پاکیزہ روح پر

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے۔

ای میل کریں