اسرائیل کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں کی اس سے خوفزدہ ہوں
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے آج سہ پہر ایران کے دورے پر آئے ہوئے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا کہ آج صہیونی جابر ریاست کی صورتحال ایسی نہیں ہے جو عرب ممالک اس سے خوفزدہ رہیں۔انہوں نے فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عرب دنیا سے توقع ہے کہ وہ ان کھلے جرائم کے مقابلے میں سیاسی میدان عمل میں کھل کر سامنے آئے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ایران اور قطر کے تعلقات میں ثبات و استحکام دونوں ہی ملکوں کے مفاد میں ہے۔ آپ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات کی موجودہ سطح بہت نیچے ہے، اسے کئي گنا زیادہ ہونا چاہیے، اسی طرح سیاسی مسائل میں بھی مزید تبادلہ خیال کی راہ ہموار ہے اور امید ہے کہ یہ دورہ، تعاون کے فروغ کا ایک نیا نقطۂ آغاز ثابت ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت میں امیر قطر کے بیان کی تائيد کرتے ہوئے، فلسطینی عوام پر خبیث صیہونیوں کے دسیوں سال سے جاری مظالم کو ایک تلخ حقیقت اور عالم اسلام اور عرب دنیا پر ایک چوٹ بتایا اور کہا کہ ان جرائم پر عرب دنیا سے اسلامی جمہوریہ ایران کی توقع ہے کہ سیاسی میدان میں کھل کر سامنے آئے۔
انھوں نے بیت المقدس کے شیخ جراح محلے میں گزشتہ سال کے واقعات کے بارے میں امیر قطر کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے میں، بعض عرب ملکوں کی جانب سے فلسطینی عوام کی حمایت، بعض یورپی ملکوں جتنی بھی نہیں تھی بلکہ انھوں نے کوئي موقف اختیار ہی نہیں کیا تھا اور اس وقت بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دے کر کہاکہ عرب ملکوں کا یہ رویہ اگر صیہونی حکومت سے خوف یا اس سے لالچ کی وجہ سے ہے تو انھیں جان لینا چاہیے کہ آج صیہونی حکومت نہ تو اس پوزیشن میں ہے کہ اس سے لالچ رکھا جا سکے اور نہ اس سے ڈرنے کا کوئي تک ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے مطابق خطے کے مسائل کا حل خود علاقائی ممالک کے ہاتھوں اور ان کے آپسی مذاکرات سے ممکن ہے۔ آپ نے کہا کہ شام اور یمن کے مسائل بھی مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں لیکن مذاکرات، کمزور پوزیشن میں نہ کیے جائيں جبکہ فریق مقابل یعنی امریکا اور دوسرے فریق، فوجی اور مالی طاقت کے بلبوتے پر مذاکرات کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اس خطے کا انتظام چلانے کے لیے دوسروں کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے، کہا کہ صیہونی جہاں بھی قدم رکھتے ہیں، فنتہ پیدا کر دیتے ہیں اور وہ ملکوں کو کسی بھی طرح کی کوئي طاقت یا مراعات نہیں دلا سکتے، بنابریں ہم خطے کے ممالک کو چاہئے کہ جتنا بھی ممکن ہو، یکجہتی اور ہم آہنگی کے ذریعے آپسی تعاون کو مضبوط کریں۔آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران اور قطر کے درمیان طے پانے والے سمجھوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سمجھوتوں کو معینہ وقت میں عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے۔
اس ملاقات میں ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی بھی موجود تھے۔ اس موقع پر امیر قطر نے اپنے دوسرے دورۂ ایران پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے، عالم اسلام میں رہبر انقلاب اسلامی کی ممتاز اور نمایاں پوزیشن کا ذکر کیا اور کہا کہ فلسطین میں صیہونی حکومت کے جرائم ناقابل برداشت ہیں اور سبھی کو فلسطین کے واقعات کے مقابلے میں استقامت سے کام لینا چاہیے۔
انھوں نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں جنین میں خاتون صحافی کی شہادت پر غم اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صیہونیوں نے بڑی ڈھٹائي سے یہ جرم انجام دیا ہے۔شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے اسی طرح مذاکرات کو شام، عراق اور یمن سمیت خطے کے ممالک کے مسائل کی راہ حل بتایا اور ایران اور قطر کے اقتصادی تعلقات کے بارے میں کہا کہ دونوں ملکوں کی اقتصادی کمیٹیاں سرگرم ہو چکی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اگلے سال تک معاشی تعاون میں قابل توجہ حد تک اضافہ ہو جائے گا۔