جنت البقیع کو آل سعود نے کیوں منہدم کیا
البقیع مدینہ منورہ میں واقع ہے ،وہ قبرستان ہے کہ جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیھم السلام ،امہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد کی قبریں ہیں کہ جنہیں آٹھ شوال 1344 ہجری قمری کو آل سعود نے منہدم کردیا اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے نام پر کیاگیا، یہ عالم اسلام خصوصاً شیعہ و سنی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، دانشور اوراہل قلم کی ذمہ داری ہے کہ ان قبور کی تعمیر نو کے لئےایک بین الاقوامی تحریک کی داغ بیل ڈالیں تاکہ یہ روحانی اور معنوی اور آثار قدیمہ سے تعلق رکھنے والے اس عظیم نوعیت کے قبرستان کی کہ جس کی فضیلت میں روایات موجود ہیں ؛ حفاظت اور تعمیر نو کے ساتھ یہاں مدفون شخصیات اورہستیوں کی خدمات کا ادنیٰ سا حق ادا کیا جاسکے۔۸شوال تاریخ جہان اسلام کا وہ غم انگیز دن ہے جب 1344 ہجری قمری کو وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم و مسمار کردیا تھا۔ یہ دن تاریخ اسلام میں یوم الہدم کے نام سے معروف ہے، وہ دن کہ جب بقیع نامی تاریخی اور اسلامی شخصیات کے مدفن اور مزاروں کو ڈھا کر اسے خاک کے ساتھ یکساں کر دیا گیا۔
معاہدہ آل سعود اور محمد بن عبد الوہاب کے درمیان:محمد بن عبد الوھاب نے 1160 ہجری میں آل سعود سے تعلق رکھنے والے درعیہ کے حاکم ابن سعود کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ نجد اور اس کے تمام دیہاتی علاقے آل سعود کے زیر تسلط رہیں گے اور محمد بن عبد الوہاب نے حکومتی ٹیکسیز سے زیادہ جمع ہونے والے جنگی غنائم، ابن سعود کو دینے کا وعدہ کیا ۔ جس کے مقابلے میں ابن سعود ، ابن عبد الوہاب کو اپنے نظریات منتشر کرنے کی مکمل آزادی دیگا ۔
یہ بات قابل ذکر ہیکہ آل سعود کا برطانیہ کے ساتھ اہم معاہدہ ہوا تھا جس میں عبد العزیزابن سعود نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے برطانیہ کو تجویز پیش کی کہ نجد اوراصاء دولت عثمانیہ سے چھیننے کا بہترین موقع یہی ہے جس کی عوض میں آل سعود کی حکومت برطانیہ کے مشورہ کے بغیر کسی بھی ملک سے رابطہ قائم نہیں کرے گی اور آل سعود برطانیہ اور امریکہ کا کا نوکر بن کر رہے گا جو آض تک باقی ہے
ادھر دوسری طرف وہابیت کو خوش کرنے کے لئے ابن عبد العزیزنے مکہ ،جدّہ اور مدینہ سے اسلامی آثار کو ختم کرنے کی ٹھان لی۔ مکہ میں موجود حضرت عبدالمطلب علیہ السلام ، ابو طالب علیہ السلام ، ام المؤمنین خدیجہ علیھا السلام کے علاوہ مقام ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت زہراء علیھا السلام کے روضہ مبارکہ کو مسمار کردیا ، بلکہ تمام زیارت گاہوں، مقدس مقامات اور گنبدوں کو ڈھا دیا ، جب مدینہ کا محاصرہ کیا تو مسجد حضرت حمزہ علیہ السلام اور مدینہ سے باہر ان کی زیارتگاہوں کو گرادیا۔ علی وردی کہتا ہے کہ بقیع مدینہ میں پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے اور اس کے بعد قبرستان تھا کہ جہاں حضرت عباس ، عثمان، امہات المومنینؑ،،بہت سے صحابہ اور تابعین کے علاوہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام میں چار امام (امام حسنؑ،امام زین العابدینؑ،امام محمد باقرؑاور امام جعفر صادقؑ) مدفون تھےکہ شیعوں نے ان چارائمہ کی قبور پر ایران ،عراق میں موجود باقی معروف ائمہؑ کی طرح خوبصورت ضریح تعمیر کر رکھی تھی، جنہیں وہابیوں نے مسمار کر دیا ۔
لیکن صاحبان عقل وخرد کیلئے لمحئہ فکریہ یہ ہے کہ اسی سعودی عرب میں یہودی باقیات قلعہ خیبر آج بھی مغربی اور یہودی سیاحوں کی توجہ کا مرکزبڑی آب وتاب سے موجود ہے جو آل سعود اور وہابیت کی آل یھود کےساتھ دوستی اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، آج بھی شیطان بزرگ آمریکہ اور اس کے ناجائز بیٹے کی خوشنودی کی خاطر آل سعود خادمین حرمین شریفین کی ڈھال کو استعمال کرتے ہوئے شام، عراق، بحرین اور یمن کے مظلوم مسلمانوں کو بے دریغ قتل کر رہا ہے اور خصوصاً اہل یمن کے غیور مسلمان ان کی سفاکی کا نشانہ بن رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں طاغوت کے مفادات کے تحٖفظ کے لئے فرزندان توحید کے خون کا پیاسا ہو چکا ہے ۔ اب علما کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آل سعود کے قبیح چہرے پر موجود منافقت کے نقاب کو نوچ کر دنیا کے سامنےاس کی حقیقت کو عیاں کریں۔
یہ آل سعود کے سیاہ کارناموں کا مختصر سا ورق ہے کہ جو تاریخی دستاویزات واسناد کی روشنی میں آل سعود اور فرقہ وہابیت کے سیاہ کارناموں کی ایک زندہ اور حقیقی مثال ہے اور دور حاضر کا مسمار قبرستان بقیع آج کے مسلمانوں سے اس بات کا سوال کر رہا ہے کہ وہ اس تاریخی بے حرمتی پر خاموش کیوں ہیں.