تحریر: محمد علی شریعتی
حوزہ نیوز ایجنسی । اس بات میں کوئی شک کی گنجایش نہیں ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی الٰہی و وحیانی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جو انسانوں کی مادی و معنوی ترقی کا بہترین ضامن تھا، نیز ان وضع کردہ اصولوں کو بنیاد بنا کر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ مسلمانوں نے اپنے شدید داخلی اختلافات کے باوجود علمی ترقی کا سفر امام جعفر صادق علیہ السلام جیسے بزرگان دین کے سائے میں جاری رکھا، یہ سلسلہ قرون وسطی تک اپنے اوج تک پہنچا اور اس زمانے میں مسلم معاشرہ خوشحالی اور تمدن کا اعلی نمونہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اس کے بعد منظر اچانک بدل گیا گویا ایسا لگ رہا تھا کہ گیند مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر مغرب کے ہاتھوں میں چلی گئی ہو یوں مسلم معاشرہ پسماندگی اور فقر و افلاس کا نمونہ بننے لگا۔ بہت سارے مسلم دانشور اس بات پر انتہائی رنجیدہ نظر آتے ہیں اور انہیں شخصیات میں سے ایک شہید مرتضی مطہری ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی پسماندگی سے نالان تھے اور اس کے اسباب و علل کو سمجھنے اور سمجھانے میں کوشاں رہے۔
شہید کی نگاہ میں اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یاجاسکتا ہے کہ آپ اپنی کتاب، انسان و سرنوشت میں لکھتے ہیں:
" مجھے صحیح یاد نہیں ہے کہ کب سے مجھے اس مسئلے میں دلچسپی ہونا شروع ہوئی تھی لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ بیس سال سے زیادہ عرصے سے اس مسئلے نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے اور اس کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا ہوں یا اس سے متعلق چیزیں پڑھ رہا ہوں"۔
اس موضوع پر آپ نے سیر حاصل بحث کی ہے اور اس پر آپ کی مستقل تقریریں اور مقالات موجود ہیں جن میں آپ نے نہایت باریک بینی کے ساتھ اس مسئلے کی گہرائیوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ شہید بعض مفکرین کی اس فکر کو انتہائی سختی کے ساتھ رد کرتے ہیں کہ جن کے مطابق مسلمانوں کے انحطاط اور پسماندگی کی وجہ ان کا دین ہے بلکہ انہوں نے اس کی وجوہات کو بعض دیگر عوامل قرار دیئے ہیں۔
ہم مختصراً شہید مطہری کی جانب سے امت مسلمہ کی پسماندگی کے بارے میں بیان کئے ہوئے بعض اسباب کی جانب اشارہ کریں گے۔
پہلی وجہ:
آپ کی نگاہ میں پسماندگی اور انحطاط کی پہلی وجہ، مسلمانوں کی اسلامی سیاسی نظام یعنی امامت سے دوری ہے، کیونکہ مسلمانوں نے اس نظام کو چھوڑنے کے بعد خلافت کو اپنایا پھر خلافت ملوکیت میں بدل گئی یوں مسلمان ایک پائیدار سیاسی سسٹم سے محروم ہوگئے جو ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل میں انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
دوسری وجہ:
آپ کی نگاہ میں پسماندگی کی دوسری بنیادی وجہ، تحجر گرائی ہے جس کی ابتداء امیر المومنین علیہ السلام کے دور خلافت میں خارجیوں کی شکل میں ہوئی اور آج کے دور میں القاعدہ، داعش اور طالبان وغیرہ اس فکر کی پیداوار ہیں جو اس جدید ترین دور ميں مسلمانوں کی پسماندگی اور عقب ماندگی کا سبب بن رہے ہیں۔
تیسری وجہ:
شہید انحراف اور دینی تعلیمات کی غلط تفسیر کو پسماندگی کی تیسری بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں مثلا تقدیر و سرنوشت کی غلط تفسیر انسان کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔
چوتھی وجہ:
آپ کی نگاہ میں التقاط یعنی غیر اسلامی گمراہ کن نظریات وثقافتوں کا مسلمانوں میں رائج ہونا بھی پسماندگی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔
پانچویں وجہ:
مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے میں استعمار کے کردار کو آپ ایک اہم ترین عامل کے طور پر دیکھتے ہیں اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ اسلامی فرقوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ہیں جن کے پیچھے استعمار کا ہاتھ ہونا روز روشن کی طرح عیان ہے دوسری طرف سے اختلافات کسی معاشرے کی پسماندگی اور غربت کا بہت بڑا سبب ہے۔