تحریر: سکندر علی بہشتی
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی جامع شخصیت نہ صرف مسلمانوں بلکہ انسانیت کے لیے راہنماء ہے۔ آپ کے انسانی کمالات، اخلاقی اوصاف اور پاکیزہ زندگی انسانی تاریخ کا روشن باب ہے، جس کی گواہی قرآن کریم، حضور اکرم، اصحاب، محدثین اور مورخین نے دی ہے اور ان کی نظر میں آپ کے فضائل و مناقب اپنے عروج پر ہیں۔ حضرت علی (ع) کا یوم شہادت، آپ کی ذات، سیرت، کردار اور شخصیت کو گہرائیوں سے سمجھنے کا بہترین موقع ہے اور آپ کی شناخت کا ذریعہ قرآن، رسول اکرم، اہل بیت، اصحاب رسول اور خود آپ کی سیرت و کردار ہے۔ آیئے ایک مختصر نگاہ کرتے ہیں۔
امیرالمومنین حضرت علی (ع) کا بچپن، نوجوانی، جوانی، عمر رسیدگی کے سارے ایام کا مطالعہ کریں۔ بچپن کا وہ ماحول جہاں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر سرپرستی آپ کی تربیت ہو رہی ہے، نوجوانی کے ایام، مکہ میں بعثت اور دعوت الہیٰ کے سرآغاز اور مشکلات و سختیوں سے بھرپور زمانہ، جوانی مدینہ میں اسلامی معاشرے کا قیام، اسلام کے نشر و فروغ، جنگ و جدال اور فتح و کامیابی میں آپ صف اول کے مجاہد و سپہ سالار ہیں۔ جزیرۃ العرب میں اسلام کا پرچم بلند ہوتا ہے، ادھر پیغمبرِ اسلام رحمت خداوندی کے مہمان بنتے ہیں۔ اسلام کی بقاء اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر مشورہ اور رہنمائی کا فریضہ اس کے بعد پانچ سال منصب خلافت پر عدل و انصاف اور اسلامی اقدار کا اعلیٰ نمونہ آپ نے پیش کیا۔
عیسائی محقق جارج جرداق نے آپ کی خلافت کو "صوت العدالۃ الانسانیہ" یعنی ندائے عدالت انسانی قرار دیا۔ آپ کی زندگی مجاہدت، عبادت، عشق خداوندی، اطاعت رسول، دین کا تحفظ اور اشاعتِ اسلام سے بھری ہے۔ مسجد میں شہادت «فزت برب الکعبہ» کے ساتھ آپ نے دنیا کو اہم پیغام دیا کہ ان تمام لازوال اور عظیم جدوجہد اور قربانیوں کا اصل مقصد اپنے پروردگار سے شہادت کے ساتھ ملاقات ہے۔ امام علی علیہ السلام کی ولادت اللہ کے گھر میں ہوئی اور اللہ کے گھر میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے اور آپ کی ولادت و شہادت کے درمیان کی زندگی بھی بندگی، اطاعت و عبادت اور اللہ کی راہ میں گزری، یعنی؛ علی ایک کامل اور کامیاب انسان کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
آپ کی نظر ظاہری کامیابی پر نہیں، بلکہ اللہ کی رضایت، اطاعتِ رسول اور دین کا تحفظ آپ کا مطمع نظر تھا۔ آپ نے الہٰی و انسانی اقدار اور اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزاری۔ آپ کی انفرادی، گھریلو، اخلاقی، معاشرتی زندگی سب قرآن و سیرت نبوی کا کامل و عملی نمونہ ہے۔ کیونکہ آپ کی پرورش بچپن سے ہی پیغمبر کے دامن میں ہوئی۔ نزول قرآن کے ساتھ نوجوانی کے ایام سے نور وحی سے آپ کا وجود روشن اور منور ہوا۔ زندگی بھر رسول کے ساتھ سایہ بن کر رہے۔ اس لیے آپ کا مقام، فضیلت، کمالات اور قربانیاں بھی سب سے نمایاں ہیں۔ جس نے پیغمبر کے بعد آپ کو معرفت، علم، تقویٰ، شجاعت، سخاوت و دیگر تمام اخلاقی اوصاف میں ایک ممتاز مقام امت میں عطا کیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم پہلو سیاسی میدان ہے۔
اپنے دور خلافت میں حکمرانی کا وہ تاریخی نمونہ پیش کیا کہ مالک اشتر کے نام خط (آئین حکمرانی) بین الاقوامی منشور کا حصہ قرار پایا۔ دنیا میں اقتدار کی خاطر اسلامی و انسانی اصول پائمال کئے جاتے ہیں۔ سیاست میں کوئی الہیٰ بلکہ انسانی و اخلاقی معیار نہیں، مخالفت میں ہر حدود سے تجاوز، جھوٹ، تہمت، توہین، ضمیر کو چند سکوں کے عوض بیچنا، سیاہ کو سفید، سفید کو سیاہ بنانا معمول ہے۔ کرسی، دولت و شہرت کے لیے کسی اخلاقی اصول کی رعایت نہیں کی جاتی۔ مگر حضرت علی علیہ السلام کی سیرت، زندگی، طرز حکمرانی، دوست و مخالف کے ساتھ روابط کا طریقہ، اقتدار مقصد نہیں، وسیلہ اور ہر چیز میں عدالت کو معیار قرار دینا جسیے اصول آپ سے اسلامی معاشرہ سیکھ سکتا ہے۔ اسی بناپر آپ کو شہید عدالت کہا جاتا ہے۔ آپ نے اقتدار کی خاطر اسلامی و شرعی اصولوں کا سودا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اصول پر ڈٹ گئے۔
آپ نے امت کو اتحاد، اتفاق اور اخوت و بھائی چارگی کا درس دیا۔ اسی لیے مسلمان مفکرین آپ کو وحدت کے لیے اسوہ قرار دیتے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے اندرونی اختلافات میں اسلام و امت کی مصلحتوں و مفادات کو ہر چیز پر ترجیح دی اور کسی بھی قسم کے افتراق کی حوصلہ شکنی کی۔ حضرت علی علیہ السلام کا درس اتحاد آج امت کے لیے انتہائی ضروری مسائل میں سے ہے۔ یہ اتحاد صرف اسلام و مسلمین کی خاطر تھا۔ ہم بھی ان سے درس اخوت لے کر مذہبی، قومی اور لسانی اختلافات کا خاتمہ کرکے ایک پرامن و محبت و الفت پر مشتمل معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ خداوند ہمیں علی علیہ السلام کے طرز زندگی کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین