جناب خدیجہ (س) نے دین کی خاطر صبر اور استقامت دیکھا کر دنیا کے لئے مثال قائم کی ہے:مولانا تقی کلکتوی

جناب خدیجہ (س) نے دین کی خاطر صبر اور استقامت دیکھا کر دنیا کے لئے مثال قائم کی ہے:مولانا تقی کلکتوی

امام خمینیؒ اس مسئلے کے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:لوگوں کوان مسائل و مشکلات اور ان واقعات حادثات پر،غور و فکر کرنا چاہیے جو اسلام کے ابتدائی دور میں پیش آئے، خود رسول خدا ﷺ پر جو مصیبتیں آئیں

جناب خدیجہ (س) نے دین کی خاطر صبر اور استقامت دیکھا کر دنیا کے لئے مثال قائم کی ہے:مولانا تقی کلکتوی

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید تقی عباس رضوی صاحب کا تعلق ہندوستان کی ریاست بنگال  کے شہر، کلکتہ  سے ہے آپ نے ابتدائی دینی تعلیم ھندوستان کے شہر کلکتہ میں حاصل کی اور اس کے بعد حوزہ علمیہ قم میں اعلی تعلیم حاصل کی اس دوران آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقے مین تبلیغ کے فرائض انجام دئے اور فی الحال نمایندگی جامعۃ المصطفی العالمیہ میں مصروف کار ہیں سے خدمت کر رہے ہیں۔

امام خمینی اردو پورٹال کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید تقی عباس رضوی صاحب نے کہا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ (سلام اللہ علیہا ) کی ذات والا صفات وہ ذات ہے جو پہلے پیغمبر(ﷺ) کی رسالت پر ایمان لایا اور پیغمبر اکرم (ﷺ) کی غربت کے زمانے میں اپنا سارا مال و منال راہ دین میں قربان کر دیا وہ نہ صرف پیغمبر (ﷺ) کی ایک زوجہ تھیں بلکہ آپﷺ کی مونس و غمخوار بھی تھیں اور آپ ﷺکی ناصر و مددگار بھی تھیں ۔حضرت خدیجۃ الکبریٰ (س) کے بارے میں جوچیزسب سے زیادہ اہم ہے وہ آپ کے اندرایثار و قربانی کا پاکیزہ جذبہ اوراسلام اورپیغمبر اسلام (ﷺ) سے عشق و محبت کی اوج و بلندی ہے، کیونکہ جب اشراف اور بزرگان قریش آپؑ سے عقد کرنے کی درخواست کر رہے تھے، تو آپؑ نے تمام صاحبان شرف کو ٹھوکر مار کر پیغمبراکرم ﷺ سے شادی کی  یہ جانتے ہوئے کہ ان کا ہاتھ دنیا کے سامان سے خالی ہے، اور حضرت خدیجہ (س) کا یہ عمل قریش کی عورتوں کے غم و غصے  کا باعث بنا۔

ان کا کہنا تھا کہ امام خمینیؒ اس مسئلے کے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:لوگوں کوان مسائل و مشکلات اور ان واقعات حادثات پر،غور و فکر کرنا چاہیے جو اسلام کے ابتدائی دور میں پیش آئے، خود رسول خدا ﷺ پر جو مصیبتیں آئیں.مگر یہاں کسی کے پائے ثبات میں کوئی لغزش دیکھنے میں نہیں ملتی ، خاص کر ملکیۃ العرب حضرت خدیجہ جیسی ثروت مند خاتون جو ایسے ماحول میں پیغمبر اکرم ﷺ کی عاشق و گرویدہ تھیں ہمیں سوچنا چاہیے کہ پیغمبراکرمﷺ کے اندر وہ کونسی ایسی قوت و توانائی تھی جو انہیں آپؑ کے قدموں پر گرنے پر مجبور کررہی تھی۔

مولانا نے کہا کہ اسلام کی آبیاری اور اس کے تحفظ و فروغ میں اللہ کے نبی ﷺ اور حضرت خدیجہ ؑ جیسی ہمسر  نے زندگی بھر جو مصائب برداشت کیے وہ ناقابل بیان ہیں، جب کہ جناب خدیجہ (س)کے پاس اتنی  دولت و ثروت تھی جس سے وہ اپنے لیے بہترین زندگی بسر کر سکتی تھیں، لیکن انھوں نے سب کچھ رسول اللہﷺ کے قدموں میں ڈال دیا اور سختیوں میں سب سے زیادہ مشقتوں  میں رہیں تاکہ  خدا کا دین زندہ ہو اور رسول خداﷺ اس سے راضی ہوں۔

اہلبیت فاونڈیشن کے نائب صدر نے کہا کہ امام خمینی ؒ اپنی زندگی میں جب بھی دفاع  مقدس کی  مصائب و مشکلات اور مسلط شدہ  جنگ ،جنگ تحمیلی سے وہ نبی کریمﷺ اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:وہ مصائب و مشکلات لیکن رسول اللہ ﷺ اور آپؑ کی پیاری مؤنس و ہمدرد اور غمگسار  زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؑ نے کبھی ان مشکلات کا کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا اور خوشی خوشی ان حالات کو کاٹا یہ ایسے  مصائب و آلام تھے جونقل و بیان کرنے سے عاجز ہے۔ البتہ یہ تاریخی حقائق ہمیں زندگی کے نشیب و فراز میں آگے بڑھنے کی بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ 

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑبعثت سے پہلے محبوب دوعالم ؐ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والی پہلی خاتونِ اسلام ہی نہیں بلکہ آپ اسلام کی سچی مخلص و ہمدرد اور نبوت کی ناصر و مددگار، پشت پناہ اور نبی رحمت کے لئے سراپا رحمت بھی تھیں ۔حُسن سیرت و اخلاق، بلندی کردار، سخاوت، جود و کرم، غریبوں، مفلسوں سے محبت و ہمدردی اور یتیم پروری آپ کی نمایاں خصوصیات میں شامل تھی۔ مزید کہا کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ ذاتی شرف و کمال اور اعلیٰ حسب و نسب کی باعظمت، مالدار اور اپنے زمانے کے مؤثر خواتین میں سے تھیں لہذا آپ کو آپ کی عظیم خوبیوں اور خصوصیتوں کے سبب ملکیۃ العرب(عرب کی ملکہ)، ناصرۂ رسولؐ،(رسول ؐ خدا کی ناصر و مددگار)، محسنہ اسلام(اسلام کی مددگار)، ام الاضیاف (مہمان نواز )ام المساکین (مسکین نواز )ام الایتام (یتیم پرور) کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔ مولانا تقی عباس نے کہا کہ آپ کے ان القابات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ خدمتِ خلق ،حق کی حمایت، شوہر کی خدمت اور نفع رسانی آپ کی حیات طیبہ کا اولین کا مقصد تھا کیونکہ ایک خاتون وہ چاہے دنیا کی ذہین، سمجھدار، ذمہ دار، تعلیم یافتہ، ملازمت یافتہ ، مالدار عورت ہی میں کیوں نہ شمار ہوتی ہو مگر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد وہ پہلے ایک بیوی ہے بعد میں اس کےسارے رشتہ اور ناطے ہیں اس لئے کہ بیوی اپنے شوہر کی اطاعت گذار،فرحت کا باعث اور غیاب و حضور میں اس کی خیرخواہ ہوتی ہے ۔آپؑ کی عائلی زندگی اور شوہر داری کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ شوہر اور بیوی کے مابین الفت و محبت کا رشتہ ہے اور ایک بیوی اپنے شوہر کے لئے راحت و آرام ‘ سکون و اطمینان کا ذریعہ ہے۔آپؑ نے شوہر کے ہر وہ حقوق اداکئے جو ایک بیوی کے ذمہ ہوتا ہے ۔ عرب کی شہزادی اور مالکہ ہونے کے باجود اپنے شوہر کی اطاعت و فرماں برداری اور اپنی نور نظر سیدہ فاطمہ زہرا علیہا السلام کو بہترین اور مثالی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرکے تاقیامت آنے والی صنف نسواں کو یہ پیغام دیا کہ: مضبوط خاندان مضبوط معاشرہ کے پیش نظر اولاد کا صالح ہوناضروری ہے ۔جس کی اولاد تعلیم و تربیت سے آراستہ نہ ہو وہ گھر و خاندان اورمعاشرہ کبھی مضبوط و مستحکم نہیں ہوسکتا۔

ای میل کریں