تحریر: سویرا بتول
ہم نے اپنے ایک کالم میں جشن مولودِ کعبہ کے نام پر جو خرافات عام کی گئیں، اُس کا تذکرہ کیا تھا، جس پر کچھ احباب ناراض بھی ہوٸے۔ بخدا اُس کالم کے بعد ایسی ویڈیوز وصول ہوٸیں، جنہیں دیکھنے کے بعد یقین نہ آیا کہ ہم اسی علی ابن ابی طالب کے ماننے والے ہیں، جو مسجدِ کوفہ میں فزت برب الکعبہ کا اعلان کرتے ہیں۔ جشن کے نام پر لہو و لعب، موسیقی، رقص، مکس گیدرنگ تک تو سنا تھا، مگر ابھی حالیہ دنوں میں میر حسن میر اور عمار نقشوانی نے ولادت مولا حسین علیہ السلام پر گالا ڈنر کا اہتمام کیا، جس میں انگریز خواتین میزبانی کے فراٸض ادا کرتی دکھاٸیں دیں۔ وہ حسین (ع) جو شب عاشور کی ایک شب کی مہلت اس لیے لیتے ہیں، تاکہ رب سے مناجات کرسکیں، اسی حسین (ع) کے نام لیوا آج لہو و لعب میں مست ہیں۔ یہ مناظر فرزند رسول کے دل نازاں پر کتنے گراں گزرتے ہوں گے۔ ان تمام ویڈیوز میں ایک ایسی ویڈیو موصول ہوٸی، جسے دیکھنے کے بعد ہمیں ابھی تک یقین نہیں آرہا۔ فرزندان رہبر اور عاشقان رہبر کی سرزمین پر مرگ بر ولایت فقیہ کے نعرے کوٸی اور نہیں بلکہ عاشقان مولاٸے کاٸنات لگاتے ہوٸے دکھاٸی دیئے۔
نظریہ ولایت فقیہ جاننے سے پہلے اُن افراد کے عقاٸد کو جاننا ضروری ہے، جو یہ نعرے بلند کر رہے ہیں۔ یہاں ایک بات واضح کر دیں کہ اِن عقاٸد کا تعلق مذہب اہل بیت سے قطعاً نہیں ہے اور یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سب جان لیں کہ ایسے عقاٸد کا مذیب تشیع سے کوئی تعلق نہیں۔ مرگ بر ولایت فقیہ کے نعرے نام نہاد تنظیم مرکز ولایت علی پاکستان (سندھ) کی جانب سے لگاٸے جاتے ہیں، جن کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اجتہاد دین آلِ محمد میں حرام ہے اور یہ افراد کسی غیر معصوم کی تقلید کرنا صریحاً حرام سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق اذان، اقامت اور تشہد سمیت ہر عبادت میں شہادت ثالثہ لازم ہے۔ ولایت علی کو ولایت عظمیٰ قرار دیتے ہوٸے ولایت فقیہ سے لاتعلقی کا اظہار کرنا اور ایسے عقاٸد کی تشہیر کرنا جن کا مذہب اہل بیت سے تعلق نہیں۔
اب جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ نظریہ ولایت فقیہ کیا ہے اور آیا کسی غیر معصوم کی تقلید کرنا جاٸز ہے؟ ایران کے اسلامی انقلاب اور ولایت فقیہ کی اساس پر وہاں حکومت تشکیل ہونے کے بعد ہمارے معاشرے میں ولایت فقیہ کی اصطلاح عام ہوئی، لیکن کیونکہ ہمارے یہاں اس نظریئے کی تفہیم اور تشریح پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا، جس کی وجہ سے ولایت کے سیاسی، معاشرتی اور اجتماعی پہلو پوشیدہ رہے اور ولایت سے وابستگی محض ولی فقیہ سے اظہار عقیدت تک محدود رہ گئی۔ ولایت ایک انتہائی وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے، جس کے معنی حکومت، سرپرستی، تعلق، بندھن، اتصال دو چیزوں کا ایک دوسرے میں بل کھاٸے ہوٸے ہونا اور ایک دوسرے سے ولایت رکھنے والے افراد کا سیسہ پلاٸی دیوار کی مانند باہم پیوست اور جڑا ہوا ہونا ہے۔
تقلید ایک فطری تقاضا ہے اور اسی لیے اس کا جواز قرآن اور روایاتِ اہلبیت سے ملتا ہے۔ آیاتِ قرآنی میں کئی آیتوں کا علماء نے تذکرہ فرمایا ہے، ان میں سے سورة توبہ میں ارشاد ہوتا ہے"فلولا نفر من کل فرقة منھم طاٸفة لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعولعلھم یحذرون" (سورة توبہ ١٢٢) اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ لوگوں پر واجب کفاٸی ہے کہ وہ علم دین حاصل کریں اور لوگوں کو ہدایت کریں، تاکہ لوگ ان کے فتوی پر عمل کرکے نجات حاصل کریں اور اسی طرح فرمان الہیٰ ہے "فاسٸلو اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون" یہ آیت دو مرتبہ قرآن میں آٸی ہے، ایک دفعہ سورة انبیاء اور ایک بار سورة نحل میں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ انسان پر اصلاح عمل کے لیے اہل علم سے مساٸل دریافت کرنا واجب ہے۔ اس طرح ایسی بہت ساری روایات ہیں، جن سے تقلید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ امام زمانہ فرماتے ہیں: "وما الحوادث الواقعة و فارجعو فیھا الی روات احادیثنا ھم حجتی علیکم و انا حجتہ اللہ علیھم" اس کا معنی ہے کہ لوگوں پر واجب ہے کہ ابتلاٸی اور پیش آمد مساٸل میں علماء کی طرف رجوع کریں۔ امام نے اِن لوگوں کو حجت بنایا ہے، جیسے خود امام زمانہ علیہ السلام علماء بلکہ تمام دنیا پر حجت ہیں اور کچھ روایات ہیں، جن میں امام نے اپنے شاگردوں کو فتویٰ صادر کرنے کی اجازت دی ہے۔
لہذا ان حالات میں مومنین کو چاہیئے کہ جب تک وہ اعلم تعیین یا تشخيص میں سے کسی ایک طریقے پر عبور حاصل نہ کرسکتے ہوں تو کسی مجتہد کی تقلید کو اختیار کریں، جو ان کی ضروریات زندگی، رہن سہن، رسم و رواج اور زبان کے لحاظ سے صحیح رہنمائی کرسکے۔ ولی کو تلاش کیجیے، خدا کے ولی کو پہنچانیے، اسلامی معاشرے کے حقیقی ولی کا تعین کیجیے۔ اس کے بعد ذاتی طور پر فکری لحاظ سے، عملی لحاظ سے، جذبات و احساسات کے لحاظ سے اپنے آپ کو اس سے متصل اور مرتبط کیجیے، اس کی اتباع کیجیے، اس انداز سے کہ آپ کی کوشش اِس کی کوشش، آپ کا جہاد اُس کا جہاد، آپ کی دوستی، اس کی دوستی اور آپ کی صف، اس کی صف ہو۔ اس طرح کا انسان ولایت کا حامل انسان ہوتا ہے۔ گویا ثابت ہوا کہ ہر مسلمان اور ہر وہ شخص جو خدا کی بندگی کا دعویدار ہے، اُسے چاہیئے کہ اپنا ولی اور فرمانروا اور اپنی پوری زندگی کی تمام سرگرميوں کا قاٸد اور مختارِ کل خدا کی طرف سے متعین شخص کو قرار دے، اپنے آپ کو خداوندِ عالم کے مامور اور مقررہ کردہ ولی کے سپرد کرے، اللہ کے ولی کے ہاتھ پر اطاعت کی بیعت کرے۔ المختصر یہ کہ اپنی زندگی کی تمام سرگرمیوں کے لیے فقط خداوندِ عالم اور ہر اُس شخص کو جسے خدا نے اپنی جانشینی کے لیے منتخب کیا ہے، اپنا حاکم اور فرمانروا سمجھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین میں جہاں ہزاروں انقلابی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، وہاں یہ افراد علی الاعلان مرگ بر ولایت فقیہ کا نعرہ کیسے باسانی بلند کر رہے ہیں۔؟ خود کو فرزندانِ رہبر کہلانے والے کہاں ہیں؟ خود کو عاشقان رہبر کا شعار بتانے والے اس نعرہ پر خاموش کیوں ہیں۔؟ وہ الہیٰ تنظیمیں جو مرکز رہبریت کو اپنا نصب العین قرار دیتی ہیں، ایسے مواقع پر وہ میدانِ عمل میں نظر کیوں نہیں آتی ہیں۔؟ اگر بالفرض آپ ولایت فقیہ کے قاٸل نہیں بھی ہیں، پھر بھی کسی سید کی اہانت کرنا کیا علی (ع) والوں کا شعار ہوسکتا؟ کیا مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے افضل نہیں؟ کہاں ہیں، رہبر کے ساتھ فوٹو سیشن بنوانے والے؟ اگر آج پوری دنیا میں شیعیت کا کوٸی مضبوط نظام موجود ہے تو وہ فقط ولایت فقیہ ہے۔ دشمن جان لے کہ ولایت فقیہ کی اتنی طاقت ہے کہ200 ملین کا وہ ڈرون جسے روس کا سب سے بڑا نظام درک نہیں کرسکا، اُس کو ہواٶں میں مار سکتے ہیں تو وہ تمہیں تمہارے گھر کے اندر بیٹھ کر دفنا بھی سکتے ہیں۔