حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیت اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی نے اس سوال کہ "وسواس میں مبتلا شخص کو آپ کیا نصیحت کریں گے؟" کے جواب میں کہا: وسواس میں مبتلا شخص کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کرے تاکہ اسے اس بیماری سے نجات حاصل ہو اور یہ امر دو مرحلوں میں حاصل ہوگا:
پہلا مرحلہ:
ایسی بات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ حالت عقلی اور شرعی لحاظ سے مذموم ہے کیونکہ اس میں مبتلا شخص عادی حالت سے خارج ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی فائدہ تو حاصل نہیں ہوتا بلکہ انسان اپنی توانائیوں کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا: وسواس ہرگز پرہیزگاری کے زمرے میں نہیں آتا ہے اور دین مبین اسلام میں یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی فہم و فراست کی صلاحیت کو متاثر کر دیتا ہے۔ اس کا سرچشمہ قوت ارادی کی کمزوری ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ وسواس شیطان کے وسوسوں میں سے ہے پس اگر انسان اسے اچھی طرح درک کرے اور اس کی حقیقت اس کے لیے واضح ہو جائے تو دوسرے مرحلے کی باری آتی ہے۔
دوسرا مرحلہ:
انسان کو اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ اسے فیصلہ کرنے کی طاقت اپنے ہاتھ میں لینی چاہیے۔ اسے شیطان کے فریب میں نہیں آنا چاہیے اور اسے اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ وسوسوں کی اعتنا نہ کرنے پر خداوند عالم اس کی سرزنش نہیں کرے گا مثلا یہ کہ غسل کے دوران پانی اس کے تمام بدن تک پہنچ گیا ہے اور وہ پاک ہو گیا ہے۔ جس قدر ان مشقوں کے متعلق اس کی بےاعتنائی زیادہ ہو گی اس وجہ سے بھی اس کے وسوسے بھی کمتر ہوتے جائیں گے اور شیطان اس سے مایوس ہو جائے گا اور وہ شخص وہ اس پر مسلط ہوجائے گا یعنی وسواس کو خاطر میں نہیں لائے گا، خداوند متعال اس کی مدد کرے گا اور شیطان کے حیلوں کو کمزور کر دے گا جیسا کہ خداوند عالم نے خود فرمایا ہے "شیطان کا مکر و حیلہ کمزور ہے"۔