فراق یار نے آنکھوں سے شوخیاں لے لیں
جفا نہ ہوتو کسے آئے دوستی کا یقیں ؟
دیا ہے یار نے خلوت میں جس کی اذن ورود
طلوع صبح کا وہ شب دلا رہی ہے یقیں
طبیب درد ہے وہ گلرخ جفا پیشہ
کھلا مرے لیے در جس کی خانقہ کا نہیں
طریق عشق مجھے بتکدے میں لے کے گیا
خودی سی دور ہوا جب سے میرا قلب خریں
بہ روز حشر، کہ جنت میں جائیں گے خوباں
نہ عاشقان طریقت میں ہوگا ایک کہیں
کبھی جو عارف سالک کی بات چھڑ جائے
کسی نتیجہ پہ پہنچنے گی کوئی بات؟ نہیں !