حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 13 جمادی الاول بروایتے دختر رسول اکرم حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے سانحہ ارتحال پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ رکھے ہوئے ہیں ہدایت اور رہنمائی کا منبع قرآن کریم اور سنت رسول اکرم سمجھتے ہیں یہ مسلمانوں کا مسلمہ و متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآنی احکام کے مطابق پیغمبر گرامی کی ذات مبارک عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل ہے جبکہ پیغمبر اکرم کی اپنی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق خواتین عالم کے لئے ماں‘ بیوی اور بیٹی ہر زاویہ نگاہ سے بہترین نمونہ عمل اور آئیڈیل شخصیت جناب سیدہ فاطمہ زہرا ؑ کی ذات ہے۔
انہوں نے کہا کہ جناب سیدہ ؑکے بارے میں فرامین پیغمبر ایسی حقیقت ہیں کہ جسے تمام مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔ جناب سیدہؑ کا دختر رسول ہونے کے حوالے سے احترام اور عقیدت اپنی جگہ ہے لیکن ان کا یہ پہلو سب سے منفرد اور نمایاں ہے کہ وہ عالم نسواں کے لئے قیامت تک نمونہ عمل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عمل اور اخلاق کے میدان میں اپنی زندگی کے جو اصول اور نقوش چھوڑے ہیں وہ دائمی اور ابدی ہیں کسی زمانے ‘ معاشرے یا علاقے تک مخصوص اور مختص نہیں ہیں۔
مزید کہا کہ خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرا ؑ کی یاد اور پیغام کو زندہ رکھنے کے تین طریقے ہیں پہلا یہ کہ ان کی ذات اقدس سے عقیدت و احترام اور محبت کا اظہار کیا جائے اور ان سے مکمل وابستگی دکھائی جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کو اسلام‘ انسانیت اور طبقہ نسواں کی خدمت کرنے پر خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ ان کے چھوڑے ہوئے قطعی وحتمی نقوش اور اصولوں کو تلاش کرکے ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان کو آج کے دور میںزندگیوں میں نافذ کرنے اور ان سے مطابقت کرنے کے طریقے تلاش کئے جائیں کہ جس سے شریعت سہلہ کا تصور اجاگر ہو شریعت کی پابندی بھی برقرار رہے اور انسان شتر بے مہار نہ بنے بلکہ اسلامی احکامات کا پابند رہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ سنگین دور میں جب خواتین میں فکری انتشار پیدا ہوچکا ہے۔ عورت کو نفسانی خواہشات کی علامت بنادیا گیا ہے اور ترقی و جدت کے نام پر عورتوں کا ہر معاشرے میں شدت سے استحصال کیا جارہا ہے ایسے حالات میں سیدہ فاطمہ زہراؑ کی سیرت اور کردار ہی واحد ذریعہ ہے جو دنیا بھر کی خواتین کو انحراف ‘استحصال اور گناہوں سے بچاسکتا ہے۔ آزادی نسواں کی حدود و قیود ہر سوسائٹی نے مقرر کررکھی ہیں سوائے ان لوگوں کے جو مادر پدر آزاد ہیں اور کسی ضابطے‘ اخلاق اور قانون کے پابند نہیں اور یہی لوگ ایسے معاشروں کی تشکیل میں مصروف ہیں جہاں عورت کو منفی استعمال کیا جائے ‘ اسکی عزت و حرمت کو پامال کیا جائے اور مرد و زن کے اختلاط سے معاشروں میں بگاڑپیدا کیا جاسکے لہذا ان حالات میں خواتین کی آزادی کے لئے ان اصولوں کی روشنی میں جدوجہدکی جائے جناب سیدہ فاطمہؑ کی طرف سے اجاگر کئے گئے ہیں کیونکہ سیدہ فاطمہ ؑ کی پرورش آغوش رسول میں ہوئی۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندانی‘ ذاتی معاملات سے لے کر اجتماعی معاملات تک ہر موقع پر سیدہؑ کے کردارکو مدنظر رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی گود سے ایسی نیک سیرت نسلیں معاشرے کو فراہم کریں مثبت تبدیلی لانے کی استعداد رکھتی ہوں جیسا کہ حضرت فاطمہؑ کی پاکیزہ گود سے حسن ؑ اور حسین ؑ جیسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے وقت اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑااور اقبال نے کیا خوب کہاکہ بتول باش و پنہاںشو ازیں عصرکہ در آغوش شبیری بگیری۔