اتحاد اور یکجہتی امام خمینی(رح) کی نظر میں
انسان فطرتا توحید کی طرف مائل ہوتا ہے اور پوری تاریخ میں دیکھ لیں انسانی عقل نے جہاں خواہشات نفسانی اور اغراض شیطانی کا عمل دخل نہ تھا توحید کی اساس پر ہی عمل کیا ہے اور تنازعات ،پراکندگی اور تفرقہ کو انسانی معاشرے کے مفادات کے خلاف اور گمراہی کا باعث قرار دیا ہے۔تمام انبیاء الھی علیھم الصلواۃ والسلام کی دینی دعوت کی اساس توحید پر ہی تھی انہوں نے توحید ہی کے سہارے انسان کو شرک و کفر و الحاد سے پاک کرنے کی کوشش کی،توحید کا عقیدہ اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے ۔
اسلام کے تمام مشرب خواہ فلسفی عرفانی اخلاقی کلامی یا تربیتی ہوں ان سب کی اساس توحید ہے اور وہ عالم ھستی کی تمام موجودات کو ذات وحدہ لاشریک کی آیات سمجھتے ہیں البتہ اہل تحقیق پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ انسانی معاشرے کے اتحاد کی خواہش عقیدہ توحید کا ایک جلوہ ہے اور اس کے مقابل دھڑے بندی اور کثرت پسندی مادہ پرستی و کفر کی خصوصیات ہیں۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ عالمی ادارے جن کے وجود میں آنے کا مقصد اور ان کا نعرہ قوموں اور حکومتوں کے درمیان اتحاد قائم کرنا اور اختلافات ختم کرانا ہے اکثر موقعوں پر ناکام رہے ہیں بلکہ خود سامراج کے ہاتھوں استعمال ہو کر کشیدگی اور اختلافات کا سبب بنے ہیں گذشتہ دھائیوں میں سیکڑوں تنظیموں اور حکومتوں نے آپس میں تعاون اور اتحاد قائم کرنے کے معاھدے کۓ ہیں جن کے بارے میں وسیع تشہیرات کی گئیں جن سے دنیا کے باشندوں میں امیدیں پیدا ہوگئیں لیکن ان کا کوئي نتیجہ نہ نکلا اور ناکام رہے۔
ایک زمانے سے اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد کی بات کی جا رہی ہے بہت سے اسلامی ملکوں میں سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے اتحاد کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرلیا اور حکومت چلا رہے ہیں اس موضوع پر سیکڑوں کتابیں اور مضمون بھی لکھے جا چکے ہیں اور خطباء مقررين اور مصنفین و دانشور اتحاد کی اہمیت پر تاکید کرتے رہتے ہیں لیکن اس راہ میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا میرے خیال میں ان ناکامیوں کی وجہ ان بنیادی امور میں تلاش کرنی چاہیے کہ جن پر توجہ کۓ بغیر ساری کوششیں بدستور ناکام رہیں گي۔
میرے خیال میں ان اداروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عقیدہ اتحاد اور فکری عقیدتی اصولی اور اخلاقی نظاموں کے درمیان موجود اٹوٹ بندھن کو واضح کریں ، کیا ہم توحید کا عقیدہ رکھتے ہوے خداۓ واحد پر ایمان رکھتے ہوے اور خدا کو قادر مطلق مان کر جب عمل کی نوبت آۓ تو اس کے برخلاف عمل کریں اور خلق خدا کے حالات سے بے خبر رہیں ؟
کیا ہم موحد رہتے ہوۓ اصحاب تفرقہ کے گروہ میں شامل ہوسکتے ہیں؟ صدر اسلام میں جب توحید کی دلنشین آواز ان لوگوں کے کانوں میں پہنچتی تھی جو ظلم و شرک و بت پرستی سے تنگ آ چکے تھے تو جاہلی تعصبات فخر اور احساس برتری اور قوم پرستی کے جذبات فوری ختم ہوجاتے ہیں اور اختلافات و تفرقہ کے تمام سبب یہانتک کے سببی اور نسبی تعلقات بھی خداوحدہ لاشریک پر ایمان اور نور عبودیت کے سامنے بے رنگ ہوجاتے تھے ان لوگوں نے ایسا باکمال معاشرہ تشکیل دیا تھا کہ خدا نے انہیں خیر امت کا خطاب دیا اس معاشرہ میں ایسا اتحاد و یکجھتی پائی جاتی تھی کہ سیاہ فام غلام قریش کی بااثر اور سربرآرودہ شخصیتوں کے برابر سمجھا جاتا ہے بلکہ اپنے ایمان کی بنا پر ان سے آگے بھی نکل جاتا ہے ان ہی لوگوں نے ایسی شاندار تھذیب و تمدن کی بنیاد رکھی کہ ایران اور روم کی سلطنتیں بھی اس کے مقابل نہ ٹہر سکیں اور کچھ ہی دنوں میں اس تھذیب و تمدن نے ساری دنیا کے دل جیت لۓ ۔
ہمیں خود سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ قرآن و سنت میں "امت " پر بہت زیادہ تاکید کے با وجود ہم کیوں اس اہم امر سے غافل ہیں اور ہمارے معاشروں میں دوبارہ زمانہ جاھلیت کی عادات ،جغرافیائی اور قومی مسائل نے سر ابھارا ہے ؟ یہان تک کہ ہم ان مسائل کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے مفادات اور تقدیر کو ایک دوسرے سے الگ الگ تصور کرنے لگے ہیں کیا ان ناپسندیدہ عادات سے ہمارے دینی مفادات کو خطرہ لاحق نہیں ہے ؟
جیسا کہ میں نے مضمون کے آغاز میں امام خمینی کا یہ قول نقل کیا تھا کہ "اختلاف و تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت کلمہ رحمان کی طرف سے " تاریخ میں یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ حقیقی اتحاد پیدا کرنے کی آواز پر وہی لوگ لبیک کہتے ہیں جنہوں نے اپنی توحیدی فطرت کے مطابق بھرپور طرح سےتعلیمات توحید پر عمل کیا ہو ۔اتحاد قائم رکھنا اور تفرقہ سے پرھیز واجب عینی ہے اس کی جڑیں عقیدہ توحید میں پیوست ہیں ،یاد رہے اصحاب تفرقہ شیطان کے دوست ہیں اور منادیان اتحاد رحمان کے مخلص بندے ہوتے ہیں جو امت کے مسائل سے بے خبر نہیں ہوتے۔
تاریخ اس بات کو ھرگز فراموش نہیں کرسکتی کہ ایک مرد خدا نے خالی ہاتھوں صرف خدا پر بھروسہ کرتے ہوے اتحاد کی آواز بلند کی اور مومنین ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ ان کے بتاۓ ہوۓ راستے پر قائم رہے ،نام نہاد ترقی یافتہ دنیا نے ان کے مقابل محاذ کھول دیا یہی نہیں ان کے تمام دشمنوں کو جدید ترین ہتھیار دے کران کے خلاف لا کھڑا کیا لیکن ملت کا اتحاد اتنا طاقتور ہوتاہے کہ ملت ان تمام سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئی جب اسلامی انقلاب نے دشمن پر غلبہ حاصل کرلیا اور شاھی حکومت کے تمام ستون منھدم کردیے تو سامراج کے حمایت یافتہ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں گروہوں نے انقلاب اسلامی کی مخالفت شروع کردی لیکن چونکہ ملت متحد تھی لھذا ان گروہوں کو ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا۔