اربعین حسینی (ع)

اربعین حسینی (ع) کی تاریخی حیثیت

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مومن کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے

 

حوزہ نیوز ایجنسی। اربعین حسینی ہجری سال کے مطابق سن 61 ہجری کے ماہ صفر المظفر کی بیسویں تاریخ ہے ۔ عاشور کے دن نواسۂ رسول اور آپ کے اصحاب کی شہادت کے بعد گیارہ محرم کو یزیدی کارندے اہلبیت رسول کو اسیر کرکے کوفہ اور وہاں سے شام لے گئے تھے ۔ اس سفر اور اسیری کے دوران جناب سید سجاد اور جناب زینب کے خطبوں نے شامیوں میں رسول و آل رسول کے سلسلے میں بیداری کی جو فضا پیدا کردی تھی اس سے مجبور ہوکر یزید کو اسیروں کی رہائی کا حکم دینا پڑا تھا اور قید سے رہائی کے بعد جس دن یہ لٹا ہوا خاندان کربلا پہنچا تھا وہ دن اربعین کا دن تھا۔ یہی وہ دن تھا جب پہلی بار صحابی رسول جناب جابر ابن عبداللہ انصاری عطیہ بن سعید کے ہمراہ کربلا پہنچے تھے ۔ بعض علما کا خیال ہے کہ یہ واقعہ دوسرے سال کے اربعین کا ہے ۔

 

زیارت اربعین :

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی حدیث میں زیارت اربعین کو مومن کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ نیز روز اربعین کے لیے ایک زیارت نامہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے۔ شیخ عباس قمی نے اس زیارت نامے کو مفاتیج الجنان کے تیسرے باب میں زیارت اربعین کے عنوان سے درج کیا ہے۔ قاضی طباطبائی لکھتے ہیں کہ زیارت اربعین زیارت "مردّ الرّاس" بھی کہلاتی ہے۔ یعنی سر کا لوٹا دیا جانا۔ کیوں کہ اس روز اسیران اہل بیت علیہم السلام کربلا پلٹ کر آئے تو وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا سرمبارک بھی شام سے واپس لائے تھے جس کو انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے بدن مبارک کے ساتھ دفن کیا۔

 

اربعین کی عظیم ریالیاں :

آئمہ معصومین (ع) کی زیارت اربعین پر تاکید کی بناء پر لاکھوں شیعہ دنیا کے مختلف ممالک، بالخصوص عراق اور ایران کے شہروں اور قصبوں سے ننگے پیر کربلا کی طرف نکلتے ہیں ۔ سن 2013 عیسوی کے اربعین میں یہ تعداد دو کروڑ سے زیادہ تھی اور اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں بھی خطرناک حالات کے باوجود شیعوں نے زیارت اربعین کا یہ سلسلہ جاری رکھا تھا۔

زیارت اربعین کو امام حسن عسکری علیہ السلام نے مؤمن کی نشانیوں میں بتایا ہے ۔ اسے واجب اور مستحب نمازوں کی صف میں قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح نماز ستون دین ہے اسی طرح  سانحۂ کربلا  اور زیارت اربعین بھی ستون دین ہے۔ انی تارک فیکم الثقلین کتاب ﷲ و عترتی ، رسول خدا کے اس قول پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کتاب الہی کا نچوڑ یا عصارہ دین الہی ہے اور عترت کا عصارہ زیارت اربعین ہے ۔ اس زیارت میں قیام حسینی کے مقصد کو بیان کیا گیا ہے جو نبی اکرم کی رسالت کا ہدف و مقصد تھا یعنی تعلیم علم و حکمت اور تزکیۂ نفوس ۔ حسین نے بھی اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں نثار کردیا تاکہ جہالت و نادانی سے بندگان خدا کو نکال کر انہیں پاکیزہ بنا سکیں۔

ای میل کریں