ہے فقر فخر، اگر بے نیاز عالم ہو
گزر چکا جو خودی سے تواس کو کیا غم ہو
ستارہ بخت کا اس شب کی صبح نکلے گا
کہ تا بہ وقت سحر یار جس کا ہمدم ہو
نہ سمجھا ساغر درویش کا طرب ساقی
تو بادہ ہاتھ سے اس بت کے لے جو محرم ہو
کبھی نہ کلبہ چغداں میں جائے گا طوطی
بتاؤ، باز ارم اور سگ معلم ہو؟
پناہ یا تو دل گمشدہ کو دے، ور نہ
رہا کر اس کو کہ سرگشتہ دو عالم ہو