ہے پیر میکدہ رستہ میں ، آنے والا ہے
گل شگفتہ ہے اک ساتھ ، بلکہ غنچہ ہے
وہ باغ یمن کا غنچہ جو دوست کی جاں سے
جہاں کہیں دل آگاہ ہو، مہکتا ہے
بہ موئے عطر فشاں اور با رخ شاداب
گزر کے خیمہ سے محفل تک آنے والا ہے
ہے خطہ اس کا حقیقت تو خیمہ اس کا مجاز
وہیں سے خلوت دل میں پہنچنے والا ہے
ترانہ ملک جنت سدا گلزار
کبھی کبھی دل میخوار سے ابھر تا ہے
دھواں جو اٹھتا ہے سر مست مے کے سینہ سے
بہ اشک و آہ دل پیر تک پہنچتا ہے
اٹھا لے دل سے مرے ہاتھ اب کہ نالہ مرا
نکل کے دل سے سر شاہ پر برستا ہے
غم فقیر وہ ماہی سے تا بہ ماہ گیا
اسی سے سینہ میں مہ داغ داغ ہوتا ہے
کمان ابروئے دلدار میں وہ جادو ہے
کہ راز، دل کی کمیں گاہ تک پہنچتاہے