روز عاشور بندگی و اطاعت کی عظیم معراج کا نام ہے، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلام آباد/مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے یوم عاشور کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا کہ روز عاشور بندگی و اطاعت کی عظیم معراج کا نام ہے۔خالق کائنات کے چنے ہوئے بندوں نے دین الہی کی سربلندی اور دفاع کے لیے اپنے گھر بار قربان کر یہ ثابت کیا کہ حق و صداقت کی خاطر سب کچھ لٹایا جا سکتا ہے لیکن حق کے راستے کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ حسینیت حق و سچائی کے اس رستے کا نام ہے جس کے راہی کو شدید صعوبتیں اور مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔ اللہ تعالی کی رضا کی خاطر بے دریغ قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن حق پر آنچ نہیں آنے دی جاتی۔
انہوں نے کہا کہ یزید دین اسلام کی حقیقی شکل کو مسخ کرنا چاہتا تھا۔امام عالی مقام نے اپنے نانا کے دین کا دفاع کرتے ہوئے یزید کو اس کے ناپاک ارادوں سے باز رکھا۔امام علیہ السلام نے اپنے خاندان کی قربانی دے کر بندگی کا حقیقی مفہوم سے دنیا کو آشنا کیا۔
انہوں نے کہا کہ دور عصر میں یزیدی فکر کا پرچار کیا جا رہا ہے۔اسلام کی شکل تبدیل کرنے کے لیے یہود و نصاری مسلمان نما ایجنٹوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام کے ان دشمنوں کو صرف عزم حسینی سے شکست دی جا سکتی ہے۔حسین علیہ السلام کسی مخصوص مسلک کی جاگیر کا نام نہیں بلکہ ایک ایسی بلند و ارفع اور اٹل فکر کا نام ہے جس کو اختیار کرنے والا حسینی ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے ہو۔
آخر میں کہا کہ روز عاشورہ امام زمانہ علیہ السلام کی بارگاہ میں پرسہ پیش کرتے ہوئے یہ عہد کرتے ہیں کہ جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں عزاداری امام حسین علیہ السلام اور ولایت علی علیہ السلام پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
قوم کی ناکامی یا کمزوری کی وجہ بصیرت کا نہ ہونا، مولانا سید سجاد موسوی
قم/مجمع طلاب شگر قم کی جانب سے محرم الحرام کی نویں مجلس حجت الاسلام و المسلمین مولانا سید سجاد موسوی نے خطاب کیا اور آیہ مجیدہ "من کان فی ہذہ الدنیا اعمی کان فی الآخرۃ اعمی" اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث "کان عمنا العباس نافذالبصیرہ صلب الایمان" کی روشنی میں حضرت ابالفضل العباس علیہ السلام کی بصیرت کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ ایک اہم موضوع ہے اور اس دور میں ہمیں زیادہ سے زیادہ اس نکتے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اسی لئے رہبر معظم انقلاب بھی باربار اسی نکتے کی طرف ہماری توجہ دلارہے ہیں کیونکہ کسی بھی قوم کی ناکامی یا کمزوری کی وجہ انکے ہاں بصیرت نہ ہونےکی وجہ سے ہے۔
انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ بصیرت بصر سے ہے ظاہرا دونوں روشنائی کے معنی میں ہے لیکن دقت کریں تو چشم ظاہری کےنور کو بصارت کہاجاتا ہے جبکہ یہی نور دل میں روشن ہوجائے اور چشم باطنی کے ذریعے اشیاء کےحقائق کو دیکھا جاسکے تو اس کا نام بصیرت ہے۔ابو بصیر نابینا تھے لیکن دینی امور میں وہ بابصیرت شخصیت تھے۔
مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمومنین علیہ السلام سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں اسے دیکھ کر عبادت کرتے ہیں؟تو آپنے فرمایا اعبد مالا اری؟ کیا ایسےمعبود کی عبادت کروں جسے دیکھا نہ جاسکے؟ پس آپ نے اس حقیقت کی تشریح کرکے چشم بصیرت سے دیکھنا مراد لیا۔۔۔کسی میں بصیرت ہو تو وہ کبھی بھی اپنے لیڈر پر اعتراض نہیں کرتا، سابقہ اقوام میں جس طرح عدم بصیرت کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں نے اپنے نبیوں پر اعتراض کیا اور نتیجے میں گمراہ ہوکر عذاب الہی کاگرفتار ہوئے۔زمان پیغمبر(ص) میں بھی اسی بصیرت کے نہ ہونے کی وجہ سے میدان غدیر میں اتنے بڑے مجمع میں امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کا اعلان کیاچلیکن امت پھر سے شک و تردید کا شکار ہوئی اور فرزند رسول کو میدان کربلا میں قربتاالی اللہ شہید کردیا گیا!
مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ آج معاشرہ اسلامی اگر بدبختی کا شکار ہے تنزل کا شکار ہے تو وجہ یہی ہے خواص میں بصیرت نہیں ہے۔ آخرت میں انسانوں کو انکی حقیقتوں کے تحت محشور کیاطجات اہے ۔اگر حقیقت میں چشم بینائی اور بصیرت رکھتے ہوں تو آخرت میں بھی چشم بینا کے ساتھ محشور کیاجاتاہے اگرچی ظاہری طور پر دنیا میں نابیناہو۔
انہوں نے کہا کہ حضرت ابوالفضل العباس کی بارزترین صفات میں سے ایک یہ ہےکہ آپ بہت بڑی بصیرت کے مالک تھے۔ شمرطملعون کے امان نامے پر لعنت بھیج کر واپس کردیا اور امام شناسی کا حق ادا کردیا۔اسی وجہ سے امام صادق علیہ السلام نےفرمایا: کان عمناالعباس نافذ البصرہ۔۔۔انہی کلمات کے ساتھ شہادت حضرت ابوالفضل العباس کا تذکرہ کیا اور آخر میں نوحہ خوانی اور زیارات ودعای خیر کے ساتھ مجلس کا اختتام پذیر ہوئی۔