امام حسین علیہ السلام کے قیام سے اسلام کو کامیابی حاصل ہوئی ہے
حضرت امام خمینی(رح) جو امام حسین علیه السلام کے حقیقی پیرو تھے اور اسلامی جمهوریہ کے بانی اور عصر حاضر کے ظالموں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے مبارز ہیں، اس جمله کو ایک "عظیم کلام " سے یاد کرتے ہیں اور عاشورا کے معنی کی حفاظت کرنے اور کربلا کے درس کو عملی جامہ پهنانے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " یه جمله کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا ایک عظیم جملہ ہے۔ ہماری قوم کو ہر دن کی یہی تفسیر کرنی چاہئیے که آج عاشورا ہے اور ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے اور یہیں پر کربلا ہے اور ہمیں کربلا کے کردار پر عمل کرنا چاہئیے، یہ صرف ایک سرزمین تک محدود نہیں ہے۔ ایک ہی قسم کے افراد میں محدود نہیں ہے۔ کربلا کا قضیہ صرف ستر سے زائد افراد اور ایک سرزمین کربلا تک محدود نہیں، تمام زمینوں کو یہ کردار ادا کرنا چاہئیے
امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ امام حسینؑ کے مصائب پر ہمیشہ رویا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظلم کے مقابلے میں ہمیشہ ڈٹے رہا جائےاگرچہ آپ نے دوسری جگہوں پر اس جملہ کی کچھ اور تفسیر بھی بیان کی ہے۔شہید مطہری نے تحریک کربلا میں امام حسینؑ کی حقیقی کامیابی بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ تحریک، ہمیشہ نئی کامیابی حاصل کرتی رہتی ہے۔اور "کُلُّ یَومٍ عاشورا" کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن امام حسین کے نام پر کسی ظلم و ستم سے مقابلہ ہوتا رہتا ہے اور حق اور عدل و انصاف زندہ کیا جاتا ہے۔آیت اللہ خامنہ نے بھی اس جملے کی یہ تفسیر کی ہے کہ ہر دور میں انسانوں کا ایک کردار ہوتا ہے، اگر اس کردار کو صحیح طریقے سے، مناسب لمحات میں اور اپنے وقت پر، انجام دے دیں تو ہر چیز درست ہو جائے گی، قومیں ترقی کریں گی اور انسانیت پھیل جائے گی۔
حضرت امام خمینی(رح) جو امام حسین علیه السلام کے حقیقی پیرو تھے اور اسلامی جمهوریہ کے بانی اور عصر حاضر کے ظالموں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے مبارز ہیں، اس جمله کو ایک "عظیم کلام " سے یاد کرتے ہیں اور عاشورا کے معنی کی حفاظت کرنے اور کربلا کے درس کو عملی جامہ پهنانے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " یه جمله { کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا ایک عظیم جملہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہماری قوم کو ہر دن کی یہی تفسیر کرنی چاہئیے که آج عاشورا ہے اور ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے اور یہیں پر کربلا ہے اور ہمیں کربلا کے کردار پر عمل کرنا چاہئیے، یہ صرف ایک سرزمین تک محدود نہیں ہے۔ ایک ہی قسم کے افراد میں محدود نہیں ہے۔ کربلا کا قضیہ صرف ستر سے زائد افراد اور ایک سرزمین کربلا تک محدود نہیں، تمام زمینوں کو یہ کردار ادا کرنا چاہئیے
حقیقت میں امام خمینی{رح} نے اپنے اسلامی انقلاب کو حسینی تحریک کی بنیادوں پر قرار دیا اور وه یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ سید الشهداء امام حسین علیه السلام کا قیام اور آپ {ع} کی شہادت کو مسلمانوں کے اجتماعی طور پر کام کرنے کا معیار قرار دیا جانا چاہئیے۔ اس سلسلہ میں امام خمینی{رح} فرماتے ہیں:" جو کام سید الشهداء {ع} نے انجام دیا، اور جو نصب العین وه رکھتے تھے اور جس راه پر وه چلے اور کامیابی انہیں شہادت کے بعد حاصل ہوئی وه اسلام کے لیے حاصل ہوئی۔ یہ سبق آموز عبارت فریضہ بھی ہے اور خوشخبری بھی، فریضہ اس لحاظ سے که مستضعفین پر فرض ہے که وه کیل کانٹے سے لیس سامراجی اور شیطانی طاقتوں کے خلاف، سید الشهداء{ع} کے مانند قیام کریں۔ اور خوشخبری اس لحاظ سے ہے که ہمارے شہیدوں کو کربلا کے شہیدوں میں شمار کیا گیا ہے۔"
اس رہبر عظیم الشان نے جنگ کے دوران فرمایا:" کربلا کی جنگ اگرچہ زمانہ کے لحاظ سے سب سے مختصر {نصف دن کی} جنگ تھی، لیکن ایک لحاظ سے یہ ظلم و باطل سے طویل ترین جنگ ہے اور جب تک ہر تمنا رکھنے والا یہ آرزو کرے کہ کاش میں بھی کربلا میں ہوتا اور سید الشهداء کی مدد کرتے ہوئے شہادت پر فائز ہوتا {یا لیتنا کنا معکم فـنفوز فوزاً عظیماً اس کے لیے کربلا کا محاذ گرم اور عاشورا کا معرکہ جاری ہے۔
یہ جملہ کل یوم عاشورا کل ارض کربلا بہت بڑا جملہ ہے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس جملے کا مطلب یہ ہیکہ ہمیشہ روتے رہیں لیکن اس جملے کا مطلب ہر گز یہ نہیں اس جملے کو دیکھنے کے بعد ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ عاشورہ کے دن کربلا نے ایسا کیا اہم کردار ادا کیا ہے جس کے بعد اس زمین کو ساری زمینوں پر فضیلت ملی ہے امام حسین علیہ السلام اپنے اہل خانہ اور چند اصحاب کے ساتھ کربلا تشریف لائے اور وہاں آپ نے یزید جیسے ظالم اور جابر حاکم کا مقابلہ کیا اور ظلم کے خلاف کھڑے ہوکر اپنی جان تو قربان کر دی لیکن ظلم کو قبول نہیں کیا اور اپنا سر کٹا کر یزید کو شکست دے دی ہر جگہ ایسا ہونا چاہیے ہر دن ایسا ہونا چاہیے ہماری قوم کو اور ہمیں ہر دن کو عاشورہ کا دن سمجھ کر ظلم کا مقابلہ کرنا چاہیے ہر جگہ کربلا ہے کربلا کا کردار ہمیں ادا کرنا ہوگا کربلا کسی ایک زمین سے مخصوص نہیں کربلا صرف ان 72 لوگوں سے مخصوص نہیں تھی بلکہ ہر جگہ کربلا ہے اور تمام زمینوں کو ظلم کے خلاف کربلا کی طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔