اگر اسلامی راہنما اپنے اندر امام خمینی (رہ) کی طرح اخلاص پیدا کر لیں تو عالمی سطح پر اسلامی حکومت قائم ہوسکتی ہے

اگر اسلامی راہنما اپنے اندر امام خمینی (رہ) کی طرح اخلاص پیدا کر لیں تو عالمی سطح پر اسلامی حکومت قائم ہوسکتی ہے

اس وقت جبکہ ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسے حالات میں امام خمینی(رح) کے افکار اور مقام معظم رہبری حفظہ اللہ کی تاکیدات ہی مسلمانوں کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں کیوں اسلامی انقلاب کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے پاس ایسا کوئی منشور ہی نہیں جس سے وہ اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں صرف ایک ایران کی اسلامی حکومت اور عوام ہی اس وقت تک عالم اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں یہ سب امام خمینی(رح) کے افکار پر عمل کا نتیجہ ہے کیوں کہ آپ کے افکار اسلامی افکار ہیں دینی افکار ہیں آپ کا ہر قول دین کی تفسیر کر رہا ہے جس سے آج عالم اسلام کو نجات مل سکتی اگر آج تمام اسلامی راہنما اپنے اندر امام (رہ) کی طرح اخلاص پیدا کر لیں اور آپ کے افکار پر عمل کریں تو عالمی سطح پر اسلامی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔

 اگر اسلامی راہنما اپنے اندر امام خمینی (رہ) کی طرح اخلاص پیدا کر لیں تو عالمی سطح پر اسلامی حکومت قائم ہوسکتی ہے

حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج مولانا سید مختار حسین جعفری صاحب کا تعلق ہندوستان کی ریاست جموں و کمشیر کے ضلع پونچھ سے ہے آپ نے ابتدائی دینی تعلیم ھندوستان کے شہر میرٹھ میں حاصل کی اور اس کے بعد حوزہ علمیہ قم میں اعلی تعلیم حاصل کی اس دوران آپ نے ہندوستان کے مختلف مدارس مین تدریس کے فرائض بھی انجام دئے اور ضلع پونچھ کی تحصیل مہنڈر کے علاقہ گرسائی میں ایک دینی مدرسہ بھی تاسیس کیا جس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلاب میں سے کچھ آج قم میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کچھ مختلف یونیورسٹیوں میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمت کر رہے ہیں واضح رہے کہ حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج مولانا سید مختار حسین جعفری صاحب قبلہ ریاست کے بزرگ علماء میں سے ایک ہیں جنکی علاقہ میں بین المذاھب ہم آہنگی اور اتحاد بین المسلمین کے لئے خدمات نمایاں ہیں آپ اس وقت شیعہ فیڈریشن صوبہ جموں کی سرپرستی بھی کر رہے ہیں۔ 

اپنے ایک خصوصی انٹرویوحجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید مختار حسین جعفری نے امام خمینی(رح) کی شخصیت سے آشنائی کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ امام خمینی(رح) کو انقلاب کے دو تین سال بعد پہچانا کیوں کہ انقلاب سے پہلے ہمارے علاقہ اور شاہد ہمارے ملک ھندوستان میں بھی امام خمینی(رح) کی شخصیت اتنی مطرح نہیں تھی انقلاب کی کامیابی کے بعد جب مجرموں کی سزا کا سلسلہ شروع ہوا تو پوری دنیا میں ایک شور اٹھا کہ یہ شخص بے گناہوں کو مار رہا ہے ہم اس زمانے میں  مدرسہ منصبیہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور وہاں بھی اساتید کی زبانوں پر اس کا تبصرہ ہوتا تھا اس میں کچھ موافق اور کچھ مخالف بھی تھے ہم نے جب سنا کہ ایک اسلامی انقلاب بر پا کیا گیا ہے اور گناہگاروں کو اسلامی قوانین کے مطابق سزا دی جا رہی ہے تو ہمیں امام خمینی(رح) سے دلی لگاو پیدا ہوا اور کبھی کبھی وہاں کے اساتید کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو ہوتی تھی ہمارے اساتید نے اسلامی انقلاب اور امام خمینی(رح) کی شخصیت کے بارے میں بعض اخباروں میں مضامین بھی لکھے تھے جن میں سے ہمارے ایک استاد مرحوم سخی احمد صاحب قبلہ اعلی اللہ مقامہ کا ایک سلسلہ وار مضمون  شروع ہوا تھا جس میں انھوں نے اسلامی انقلاب اور امام خمینی (رح) کی اچھے انداز میں تعریف کی تھی اس طریقے سے ہم نے امام خمینی(رح) کی شخصیت سے آشنائی حاصل کی۔

انا کا کہنا تھا کہ امام خمینی(رح) کی شخصیت کے بارے میں ہمارا نظریہ یہ ہیکہ وہ ایک دینی راہنما تھے جنہوں نے اسلام کا صحیح معنی میں مطالعہ کیا تھا اور اسلام کو سمجھا تھا اور اسلام کو سمجھ کر اسلام  کے آنے کے مقصد کو درک کیا تھا اسے درک کرنے کے بعد انھوں نے اپنی ذمہ داری سمجھی کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جسے مسلمانوں کے گھر گھر تک پہنچنا چاہیے اور اس کے قوانین کے مطابق ہمارے ملک میں ایک اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے اور ہماری  قوم کو اس اسلامی حکومت کے ذریعے اس قانون سے استفادہ کرنا چاہپیے لہذا اس سے یہ بات سمجھ آتی ہیکہ امام خمینی(رح) اسلام کو صحیح سمجھ کر اس کو صحیح سمت لے جانے والی اس دور کی ایک منفرد شخصیت تھی انھوں نے ایک ایسے دین کو دوبارہ زندہ کیا ہے جو صرف کتابوں کی زینت بنا ہوا تھا اور مدرسوں میں بحث و مباحثوں اور مناظروں میں محدود ہو چکا تھا اس کو امام خمینی(رح) نے مدرسوں اور کتابوں سے نکال کر دنیا کے سامنے پیش کیا جہاں پہلے سے بہت سارے دوسرے نظریے اور آیئن موجود تھے امام خمینی(رح) نے وہاں پر اس کو ایک نطریہ اور آئین کے طور پیش کیا یہ کمال صرف  امام خمینی(رح) کی شخصیت تک محدود ہے دور دور تک اس سلسلے میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا آج عالم اسلام کو اس نظریہ پر عمل کرتے ہوے عالمی سطح پر اسلامی حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہے تانکہ مظلوموں کو ان کا حق دلایا جا سکے اور ظالموں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔

شیعہ فیڈیرشن کے سرپرست اعلی نے کہا کہ ایران میں جو اس وقت کے حالات تھے اور حکومت معاشرہ کو اسلام سے دور کرنے کو شش کررہی  تھی لہذا اسلام کے خلاف حکومتی سرگرمیوں کو دیکھ کر امام خمینی(رح) کو اس کا بات احساس ہوا کہ ایک ایسے ملک میں اسلام کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں جس کی مسجدوں سے ولایت علی ابن ابیطالب ع کی گواہی دی جاتی ہے اور لوگ سیرت انبیاء علیھم السلام اور شریعت محمدی پر عمل کرنا چاہتے ہیں جبکہ شاہ لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کو کوشش کر رہا ہے اس نے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے لئے شہروں میں مختلف قسم کے اڈے قائم کئے ہوے تھے امام( (رہ) نے جب یہ دیکھا تو انھیں احساس ہوا کہ اگر اس دور میں اسلام کے حق میں آواز بلند نہ کی گئی تو کل ایران میں اسلام کا دور دور تک کوئی چرچا نہیں ہو گا اور اگر ہوگا بھی تو اسلام  براے نام ہو گا اور لوگ اس سے استفادہ نہیں کر سکیں گے اور معاشرہ اسلام سے دور ہو کر تباہی اور بردبادی کی طرف گامزن ہو گا لہذا امام خمینی(رح) نے مسلمانوں کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کے لئے دشمن کی تمام  مخالفتوں کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہے جس کے نتیجے میں ایران میں اسلامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوے۔

حوزہ علمیہ امام محمد باقر علیہ السلام کےمدیر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے راز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کا راز اسلامی انقلاب کے بانی کے اندر اخلاص،جذبہ مقاومت، توکل، ایمان اور مقصد پر یقین ہے یہ ساری چیزیں جب کسی راہنما کے اندر پائی جاتی ہوں تو جب وہ اپنی بات دنیا کے سامنے رکھتا ہے تو یقینا اس میں اثر ہوتا ہے کہتے ہیں: 

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے 

پر نہیں طاقت  پرواز مگر رکھتی  ہے

 

کیوں کہ یہ ان کے دل کی آواز تھی جس پر انھیں مکمل یقین تھا اس تحریک میں کامیابی کا اصلی راز یہ بھی تھا کہ امام خمینی(رح) نے قیام امام حسین ع کا صحیح مطالعہ کر کے اس کے اسرار و رموز کو لوگوں تک پہنچایا اور تحریک کربلا کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیا تھا قیام امام حسین ع  کی روشنی میں انھوں نے اپنے لئے حامی پیدا کئے اور لوگوں نےآپ کے مقصد درک کر کے آپ کے اخلاص اور آپ کی روحانیت کی وجہ سے آپ کا ساتھ دیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ اس وقت جبکہ ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسے حالات میں امام خمینی(رح) کے افکار اور مقام معظم رہبری حفظہ اللہ کی تاکیدات ہی مسلمانوں کی نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں کیوں اسلامی انقلاب کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی ملک کے پاس ایسا کوئی منشور ہی نہیں جس سے وہ اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کر سکیں صرف ایک ایران کی اسلامی حکومت اور عوام ہی اس وقت تک عالم اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں یہ سب امام خمینی(رح) کے افکار پر عمل کا نتیجہ ہے کیوں کہ آپ کے افکار اسلامی افکار ہیں دینی افکار ہیں آپ کا ہر قول دین کی تفسیر کر رہا ہے جس سے آج عالم اسلام کو نجات مل سکتی اگر آج تمام اسلامی راہنما اپنے اندر امام (رہ) کی طرح اخلاص پیدا کر لیں اور آپ کے افکار پر عمل کریں  تو عالمی سطح پر اسلامی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔

ای میل کریں