عید غدیر کا مطلب قصیدے پڑھنا اور چراغ جلانا نہیں ہے
عید غدیر کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ غدیر اس زمانے (یعنی ہجرت کے دسویں سال) تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ ہر زمانے میں ہے اور اسے زندہ رکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ چراغ جلائے جائیں، قصیدے پڑھے جائیں، محفلوں کا انعقاد کیا جائے بلکہ عید غدیر ہمیں اطاعت و فرمانبرداری کا طریقہ سکھاتی ہے۔ اس سلسلہ میں امام خمینی(رہ) مزید فرماتے ہیں کہ عید غدیر کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس نے حضرت علی علیہ السلام کو اہمیت بخشی ہو بلکہ خود حضرت علی علیہ السلام کے وجود بابرکت نے غدیر کو اہمیت عطا کی ہے۔ بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) کے نزدیک عید غدیر کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس دن خدا کے حکم سے پیغمبر اکرم صلی اللہ کی جانب سے حضرت علی علیہ السلام کو ایک عادل حکمران کے طور پر مسلمانوں کے سامنے متعارف کرایا گیا۔ امام خمینی (رہ) کا عقیدہ یہ ہے کہ غدیر نے اسلامی حکومت کے نمونے کو معین کیا ہے، ورنہ صرف حکومت کے مسئلہ کی وجہ سے اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ خود حضرت علی علیہ السلام اور آپؑ کے بعد آپ کی اولاد جس چیز کے پیچھے تھی وہ عدالت کا نفاذ تھا اور تمام انبیاء کا ایک اہم مقصد بھی یہی تھا لیکن زمانے کے حالات اور شرائط نے انہیں موقع نہیں دیا۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ غدیر خم کے اہم واقعے اور اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین یعنی حضرت علی علیہ السلام کو خلافت سے برخاست کر دینے کی وجہ سے انحراف پیدا ہوگیا کیونکہ ایک معصوم کی جگہ غیر معصوم افراد نے لے لی اور اس کے نتیجہ میں بعد میں یزید جیسے تخت خلافت پر بیٹھے اور انہوں نے خلافت کو سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ امام خمینی (رہ) کے نزدیک اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی عقب ماندگی اور مشکلوں میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ وہی انحراف تھا جو علی علیہ السلام کو برکنار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔
اسلامی جمہوریہ کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) کے نزدیک اس عید کو زندہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اطاعت اور پیروی کرنے کا طریقہ سیکھیں اور اسے کسی ایک زمانے سے مخصوص نہ سمجھیں اور جو روش و طریقہ کار حضرت علی علیہ السلام نے اپنایا ہم اسے اپنانے کی کوشش کریں۔ بلکہ تمام مسلمان اور عہدیدار بھی اسی روش و طریقے کو اپنائیں۔
عید غدیر منانے کے ساتھ ساتھ اس عید کے پیغامات کو مد نظر رکھنا لازمی ہے، اس عید کا ایک اہم پیغام یہ ہے کہ ہر پیغمبر کے بعد ایک ایسی معصوم شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو ان کے راستہ کو آگے بڑھائے اور ان کے اغراض و مقاصد کو لوگوں تک پہنچائے اور دین و شریعت کی پاسداری کرے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیھم السلام کا جانشین خداوندعالم کی طرف سے منصوب ہوتا ہے جس کا تعارف پیغمبر کے ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بعد کے لئے اپنا جانشین معین کیا۔