امام جواد علیہ السلام

امام جواد علیہ السلام کے اوصاف اور ان کا اخلاق

اھل دنیا کو جو کہ آپ کی بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے، یہ تصور ضرور ھوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شھنشاہ کا داماد ھوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال اور طور طریقے کو بدل دے گا

امام جواد علیہ السلام کے اوصاف اور ان کا اخلاق

 

ابنا۔ امام محمد تقی علیہ السّلام اخلاق واوصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرہ امتیاز تھی کہ ھر ایک سے جھک کر ملنا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، مساوات اور سادگی کو ھر حالت میں پیش نظر رکھنا، غربا کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رھنا. مھمانوں کی خاطر داری میں انھماک اور علمی اور مذھبی پیاسوں کے لئے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پھلو تھا . بالکل ویسا ہی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا جس کے حالات اس سے پھلے لکھے جاچکے ھیں .

اھل دنیا کو جو کہ آپ کی بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے، یہ تصور ضرور ھوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شھنشاہ کا داماد ھوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال اور طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی. حقیقت میں یہ ایک بھت بڑا مقصد ھوسکتا ھے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا .بنی امیہ یا بنی عباس کے بادشاھوں کا آل رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا کہ جتنا ان کے صفات سے ۔ وہ ھمیشہ اس کے درپے رھتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ھے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ھوا ھے ، کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لئے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے. امام حسین علیہ السّلام سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اورپھر امام رضا علیہ السّلام کو ولی عھد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ , فقط ظاھری شکل وصورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادات مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی . جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے بیعت نہ کی تو وہ شھید کر ڈالے گئے , اسی طرح امام رضا علیہ السّلام ولی عھد ھونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زھر کے ذریعے سے ھمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا .

اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتھائی قیمتی تھا کہ امام رضا علیہ السّلام کا جانشین تقریباً آٹھ برس کابچہ ھے جو تین برس پھلے باپ سے چھڑا لیاجاچکا تھا . حکومت وقت کی سیاسی سوجہ بوجہ کھہ رھی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نھایت آسان ھے اوراس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگر انتھائی خطرناک قائم ھے ھمیشہ کے لئے ختم ھوجائے گا .

مامون امام رضا علیہ السّلام کو ولی عھد ی کی مھم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کاسبب نھیں تصور کرتا تھا ,ا س لئے کہ امام رضا علیہ السّلام کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی .ا س میں تبدیلی اگر نھیں ھوتی تو یہ ضروری نھیں کہ امام محمد تقی علیہ السّلام جو آٹہ برس کے سن میں قصر حکومت میں نشو نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر بر قرا ر رھے .

سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے .اس وقت کا ھر شخص یقیناً مامون ھی کا ھم خیال ھوگا . مگر دنیا تو حیران ھوگئی جب یہ دیکھا کہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شھنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ھے اس عمر میں اپنے خاندانی رکہ رکھاؤ اور اصول کااتنا پابند ھے کہ وہ شادی کے بعد شاھی محل میں قیام سے انکار کردیتا ھے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رھتا ھے تو ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتا ھے . اس سے بھی امام علیہ السّلام کی مستحکم قوتِ ارادی کا اندازہ کیا جاسکتا ھے . عموماً مالی اعتبار سے لڑکی والے کچہ بھی بڑا درجہ رکھتے ھوتے ھیں تو وہ یہ پسند کرتے ھیں کہ جھاں وہ رھیں وھیں داماد بھی رھے . اس گھر میں نہ سھی تو کم از کم اسی شھر میں اس کا قیام رھے . مگر امام محمد تقی علیہ السّلام نے شادی کے ایک سال بعد ھی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا . یقیناً یہ امر ایک چاھنے والے باپ اور مامون ایسے بااقتدار کے لئے انتھائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام علیہ السّلام مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے .

مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وھی انداز رھا جو اس سے پھلے تھا . نہ پھریدار نہ کوئی خاص روک ٹوک , نہ تزک واحتشام نہ اوقات ملاقات، نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤں میں کوئی تفریق . زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رھتی تھی جھاں مسلمان حضرات کی وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے . راویان حدیث دریافت کرتے تھے . طالب علم مسائل پوچھتے تھے . صاف ظاھر تھا کہ آپ امام جعفرصادق علیہ السّلام ھی کے جانشین ھیں جو اسی مسند علم پر بیٹھے ھوئے ھدایت کاکام انجام دے رھے ھیں .

امور خانہ داری اور ازدواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے ا پنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا ان ھی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا . آپ نے اس کی مطلق پروا نھیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شھنشاہ وقت کی بیٹی ھیں . چنانچہ ام الفضل کے ھوتے آپ نے حضرت عمار یاسرکی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی کیا اور قدرت کو نسلِ امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا . یھی امام علی نقی علیہ السّلام کی ماں ھوئیں . ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکہ کر بھیجی . مامون کے د ل کے لئے بھی یہ کچہ کم تکلیف دہ امر نہ تھا . مگر اسے اب اپنے کیے کو نباھنا تھا . اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمھارا عقد ابو جعفر علیہ السّلام کے ساتھ اس لئے نھیں کیا ھے کہ ان پر کسی حلالِ خدا کو حرام کردوں . مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا.

جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ھے . ھمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ھیں کہ اگر مذھبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ھوئی ھے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نھیں کیا گیا جیسے پیغمبر کے لئے جناب خدیجة کبریٰ علیہ السّلام اور حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کے لئے جناب فاطمہ زھرا علیھا السّلام مگر شھنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لئے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ھے، اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد محافظ تھے اس لئے امام محمدتقی علیہ السّلام نے اس کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا .

ای میل کریں