مامون رشید عباسی اور حضرت امام محمد تقی  (ع)  کا پہلا سفر عراق

مامون رشید عباسی اور حضرت امام محمد تقی (ع) کا پہلا سفر عراق

عباسی خلیفہ مامون رشید حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت سے فراغت کے بعد یا اس لیے کہ اس پر امام رضا کے قتل کا الزام ثابت نہ ہو سکے یا اس لیے کہ وہ امام رضا کی ولیعہدی کے موقع پر اپنی بیٹی ام حبیب کی شادی کا اعلان بھی کر چکا تھا

مامون رشید عباسی اور حضرت امام محمد تقی  (ع)  کا پہلا سفر عراق

 عباسی خلیفہ مامون رشید حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت سے فراغت کے بعد یا اس لیے کہ اس پر امام رضا کے قتل کا الزام ثابت نہ ہو سکے یا اس لیے کہ وہ امام رضا کی ولیعہدی کے موقع پر اپنی بیٹی ام حبیب کی شادی کا اعلان بھی کر چکا تھا کہ ولی عہد کے فرزند امام محمد تقی کے ساتھ کرے گا اسے نبھانے کے لیے یا اس لیے کہ ابھی اس کی سیاسی ضرورت اسے امام محمد تقی کی طرف توجہ کی دعوت دے رہی تھی ،بہر حال جو بات بھی ہو، اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ سے دعوت نامہ ارسال کیا اور انہیں اسی طرح مجبور کر کے بلایا جس طرح امام رضا علیہ السلام کو بلوایا تھا۔ حکم حاکم مرگ مفاجات، بالاخر امام محمد تقی علیہ السلام کو بغداد آنا پڑا۔

 بازار اور مچھلی کا واقعہ: 

امام محمد تقی علیہ السلام جن کی عمر اس وقت تقریبا 9 سال کی تھی، ایک دن بغداد کے کسی گزر گاہ میں کھڑے ہوئے تھے اور چند لڑکے وہاں کھیل رہے تھے کہ ناگہاں خلیفہ مامون کی سواری آتی دکھائی دی، سب لڑکے ڈر کر بھاگ گئے مگر حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اپنی جگہ پر کھڑے رہے جب مامون کی سواری وہاں پہنچی تو اس نے حضرت امام محمد تقی سے مخاطب ہو کر کہا کہ صاحبزادے جب سب لڑکے بھاگ گئے تھے تو تم کیوں نہیں بھاگے؟ انہوں نے بے ساختہ جواب دیا کہ میرے کھڑے رہنے سے راستہ تنگ نہ تھا جو ہٹ جانے سے وسیع ہو جاتا اور میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا کہ ڈرتا نیز میرا حسن ظن ہے کہ تم بے گناہ کو ضرر نہیں پہنچاتے۔ مامون کو حضرت امام محمد تقی کا انداز بیان بہت پسند آیا۔ 

اس کے بعد مامون وہاں سے آگے بڑھا، اس کے ساتھ شکاری باز بھی تھے۔ جب آبادی سے باہر نکل گیا تو اس نے ایک باز کو ایک چکور پر چھوڑا باز نظروں سے اوجھل ہو گیا اور جب واپس آیا تو اس کی چونچ میں ایک چھوٹی سی مچھلی تھی جس کو دیکھ کر مامون بہت متعجب ہوا تھوڑی دیر میں جب وہ اسی طرف لوٹا تو اس نے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ وہیں دیکھا جہاں وہ پہلے تھے لڑکے مامون کی سواری دیکھ کر پھر بھاگے، لیکن حضرت امام محمد تقی علیہ السلام بدستور سابق وہیں کھڑے رہے جب مامون ان کے قریب آیا تو مٹھی بند کر کے کہنے لگا کہ صاحبزادے بتاؤ، میرے ہاتھ میں کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اپنے دریائے قدرت مین چھوٹی مچھلیاں پیدا کی ہیں اور سلاطین اپنے باز سے ان مچھلیوں کا شکار کر کے اہلبیت رسالت کے علم کا امتحان لیتے ہیں۔ یہ سن کر مامون بولا ! بے شک تم علی بن موسی الرضا کے فرزند ہو، پھر ان کو اپنے ساتھ لیتا گیا۔

 

صواعق محرقہ ص 123

 

مطالب السول ص 290

 

شواہد النبوت ص 204

 

نور الابصار ص 145

 

ارحج المطالب ص 459

 

یہ واقعہ ہماری بھی بعض کتابوں میں ہے اس واقعہ کے سلسلہ میں جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان میں ان اللہ خلق فی بحر قدرتہ سمکا صغارا، مندرج ہے البتہ بعض کتب میں، بین السماء و الھواء لکھا ہے، اول الذکر کے متعلق تو تاویل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہر دریا خداوند کی قدرت سے جاری ہے اور مذکورہ واقعہ میں امکان قوی ہے کہ باز اسی زمین پر جو دریا ہیں انھیں کے کسی ایک سے شکار کر کے لایا ہو گا البتہ آخر الذکر کے متعلق کہا جا سکتا ہے:

 

1- جہاں تک مجھے علم ہے ہر گہرے سے گہرے دریا کی انتہا کسی سطح ارضی پر ہے۔

 

2- بقول علامہ مجلسی بعض دریا ایسے ہیں جن سے ابر چھوٹی مچھلیوں کو اڑا کر اوپر لے جاتے ہیں ۔

 

3- آسمان اور ہوا کے درمیان بحر متلاطم سے مراد فضا کی وہ کیفیات ہوں جو دریا کی طرح پیدا ہوتے ہیں۔

 

4- کہا جاتا ہے کہ علم حیوان میں یہ ثابت ہے کہ مچھلی دریا سے ایک سو پچاس گز تک بعض حالات میں بلند ہو جاتی ہے، بہر حال انہیں گہرائیوں کی روشنی میں فرزند رسول نے مامون سے فرمایا کہ بادشاہ بحر قدرت خداوندی سے شکار کر کے لایا ہے اور آل محمد کا امتحان لیتا ہے۔ 

ام الفضل کی رخصتی ، امام محمد تقی (ع) کی مدینہ کو واپسی اور حضرت کے اخلاق و اوصاف و عادات و خصائل: 

اس شادی کا پس منظر جو بھی ہو ، لیکن مامون نے نہایت اچھوتے انداز سے اپنی لخت جگر ام الفضل کو حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے حبالہ نکاح میں دیدیا۔ تقریبا ایک سال تک امام علیہ السلام بغداد میں مقیم رہے، مامون نے دوران قیام بغداد میں آپ کی عزت و توقیر میں کوئی کمی نہیں کی ، 

الی ان توجہ بزوجتہ ام الفضل الی المدینة المشرفة، 

یہاں تک آپ اپنی زوجہ ام الفضل سمیت مدینہ مشرفہ تشریف لے آئے۔

 

نور الابصار ص 146 

مامون نے بہت ہی انتظام و اہتمام کے ساتھ ام الفضل کو حضرت کے ساتھ رخصت کر دیا۔ 

علامہ شیخ مفید، علامہ طبرسی، علامہ شبلنجی، علامہ جامی تحریر فرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام اپنی اہلیہ کو لیے ہوئے مدینہ تشریف لے جا رہے تھے، آپ کے ہمراہ بہت سے حضرات بھی تھے چلتے چلتے شام کے وقت آپ وارد کوفہ ہوئے وہاں پہنچ کر آپ نے جناب مسیب کے مکان پر قیام فرمایا اور نماز مغرب پڑھنے کے لیے وہاں کی ایک نہایت ہی قدیم مسجد میں تشریف لے گئے، آپ نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا، پانی آنے پر ایک ایسے درخت کے نیچے میں وضو کرنے لگے جو بالکل خشک تھا اور مدتوں سے سرسبزی اور شادابی سے محروم تھا۔ امام علیہ السلام نے اس جگہ وضو کیا، پھر آپ نماز مغرب پڑھ کر وہاں سے واپس ہوئے اور اپنے پروگرام کے مطابق وہاں سے روانہ ہو گئے۔

 

امام علیہ السلام تو تشریف لے گئے لیکن ایک عظیم نشانی چھوڑ گئے اور وہ یہ تھی کہ جس خشک درخت کے نیچے آپ نے وضو فرمایا تھا وہ سرسبز و شاداب ہو گیا، اور رات ہی بھر میں وہ تیار پھلوں سے بھر گیا، لوگوں نے اسے دیکھ کر بے انتہا تعجب کیا۔

 

الارشاد، شیخ مفید، ص 479

 

اعلام الوری ص 205

 

نور الابصار ص 147

 

شواہد النبوت ص 205

 

کوفہ سے روانہ ہو کر طے مراحل و قطع منازل کرتے ہوئے آپ مدینہ منورہ پہنچے وہاں پہنچ کر آپ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں مشغول ہو گئے۔ پند و نصائح، تبلیغ و ہدایت کے علاوہ آپ نے اخلاق کا عملی درس شروع کر دیا خاندانی طرہ امتیاز کے بموجب ہر ایک سے جھک کر ملنا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، مساوات اور سادگی کو ہر حال میں پیش نظر رکھنا، غرباء کی پوشیدہ طور پر خبر لینا، دوستوں کے علاوہ دشمنوں سے بھی اچھا سلوک کرتے رہنا، مہمانوں کی خاطر داری میں توجہ کرنا اور علمی و مذہبی پیاسوں کیے لیے فیض کے چشموں کو جاری رکھنا ، آپ کی سیرت زندگی کے نمایاں پہلو تھے۔ اہل دنیا جو آپ کی بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے، انہیں یہ تصور ضروری ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہو جانا یقینا اس کے چال ڈھال ، طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی۔ 

حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہو سکتا ہے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا بنی امیہ یا بنی عباس کے بادشاہوں کو آل رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا، جتنا ان کی صفات سے تھا۔ وہ ہمیشہ اس کے در پے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ منورہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے، یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لیے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے ۔ 

امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کرنا، اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام رضا کو ولی کو عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ تھا فقط ظاہری شکل و صورت میں ایک کا انداز معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ  ارادت مندی کے روپ میں تھا، مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں کی ایک تھی ، جس طرح امام حسین نے بیعت نہ کی، تو وہ شہید کر ڈالے گئے، اسی طرح امام رضا علیہ السلام ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چلے تو آپ کو زہر کے ذریعہ سے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ 

اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا کا جانشین ایک آٹھ، نو، برس کا بچہ ہے، جو تین چار برس پہلے ہی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچہ کو اپنے طریقے پر لانا نہایت آسان ہے اور اس کے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتہائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ 

مامون رشید عباسی، امام رضا علیہ السلام کے ولی عہدی کی مہم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کا سبب نہیں تصور کرتا تھا اس لیے کہ امام رضا کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی، اس میں تبدیلی نہیں ہوئی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی جو آٹھ ، نو برس کے سن سے قصر حکومت میں نشو و نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر برقرار ہیں۔ 

سوائے ان لوگوں کے جو ان مخصوص افراد کے خدا داد کمالات کو جانتے تھے، اس وقت کا ہر شخص یقینا مامون ہی کا ہم خیال ہو گا، مگر حکومت کو حیرت ہو گئی جب یہ دیکھا کہ وہ نو برس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے اس عمر میں اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ اور اصول کا اتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکار کر دیتا ہے ، اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رہتا ہے تو ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتے ہیں اس سے بھی امام کی مستحکم قوت ارادی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ عموما مالی اعتبار سے لڑکی والے جو کچھ بھی بڑا درجہ رکھتے ہوتے ہیں تو وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہیں وہیں داماد بھی رہے اس گھر میں نہ سہی تو کم از کم اسی شہر میں اس کا قیام رہے، مگر امام محمد تقی نے شادی کے ایک سال بعد ہی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت پر مجبور کر دیا یقینا یہ امر ایک چاہنے والے باپ اور مامون ایسے باقتدار کے لیے انتہائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے۔ 

مدینہ تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وہی عالم رہا جو اس کے پہلے تھا ،نہ پہرہ دار نہ کوئی خاص روک ٹوک، نہ تزک و احتشام نہ اوقات ملاقات، نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی تفریق زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرت کے وعظ و نصحیت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ راویان حدیث، اخبار و احادیث دریافت کرتے تھے طالب علم مسائل پوچھتے تھے ، صاف ظاہر تھا کہ جعفر صادق ہی کا جانشین اور امام رضا کا فرزند ہے جو اسی مسند علم پر بیٹھا ہوا ہدایت کا کام انجام دے رہا ہے۔ 

امور خانہ داری اور ازدواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے اپنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا ہوا تھا انہیں حدود میں آپ نے ام الفضل کو بھی رکھا، آپ نے اس کی مطلق پرواہ نہ کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہے چنانچہ ام الفضل کے ہوتے ہوئے آپ نے حضرت عمار یاسر کی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی فرمایا اور قدرت کو نسل امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھی ، یہی امام علی نقی کی ماں ہوئیں۔ ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کر بھیجی، مامون کے دل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا، مگر اسے اب اپنے کیے کو نباہنا تھا۔ اس نے ام الفضل کو جواب میں لکھا کہ میں نے تمہارا عقد ابو جعفر سے ساتھ اس لیے نہیں کیا کہ ان پر کسی حلال خدا کو حرام کر دوں خبردار! مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا۔ 

یہ جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے، ہمارے سامنے اس کی نظریں موجود ہیں کہ اگر مذہبی حیثیت سے کوئی با احترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا، جیسے پیغمبر اسلام کے لیے جناب خدیجة اور حضرت علی المرتضی کے لیے جناب فاطمة الزہراء ، مگر شہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لیے کہ وہ ایک بادشاہ کی بیٹی ہے، اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد محافظ تھے، اس لیے امام محمد تقی علیہ السلام نے اس کے خلاف طرز عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا۔

 سوانح محمد تقی ج 2 ص 11

 

امام محمدتقی علیہ السلام اور طیء الارض: 

امام محمد تقی علیہ السلام اگرچہ مدینہ میں قیام فرما تھے لیکن فرائض کی وسعت نے آپ کو مدینہ ہی کے لیے محدود نہیں رکھا تھا آپ مدینہ میں رہ کر اطراف عالم کے عقیدت مندوں کی خبر گیری فرمایا کرتے تھے یہ ضروری نہیں کہ جس کے ساتھ کرم گستری کی جائے وہ آپ کے کوائف و حالات سے بھی آگاہ ہو، عقیدہ کا تعلق دل کی گہرائی سے ہے کہ زمین و آسمان ہی نہیں ساری کائنات ان کے تابع ہوتی ہے انہیں اس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ کسی سفر میں طے مراحل کے لیے زمین اپنے قدموں سے نانپا کریں، ان کے لیے یہی بس ہے کہ جب اور جہاں چاہیں چشم زدن میں پہنچ جائیں اور یہ عقلا محال بھی نہیں ہے ایسے خاصان خدا کے اس قسم کے واقعات قران مجید میں بھی ملتے ہیں۔ 

آصف ابن برخیا وصی جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے علماء نے اس قسم کے واقعات کا حوالہ دیا ہے ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر شام پہنچے، وہاں ایک شخص کو اس مقام پر عبادت میں مصروف و مشغول پایا جس جگہ امام حسین کا سر مبارک لٹکایا گیا تھا آپ نے اس سے کہا کہ میرے ہمراہ چلو وہ روانہ ہوا، ابھی چند قدم نہ چلا تھا ، کہ کوفہ کی مسجد میں جا پہنچا وہاں نماز ادا کرنے کے بعد جو روانگی ہوئی، تو صرف چند منٹوں میں مدینہ منورہ جا پہنچے اور زیارت و نمازسے فراغت کی گئی، پھر وہاں سے چل کر لمحوں میں مکہ معظمہ رسیدگی ہوئی ، طواف و دیگر عبادت سے فراغت کے بعد آپ نے چشم زدن میں اسے شام کی مسجد میں پہنچا دیا۔ 

اور خود نظروں سے اوجل ہو کر مدینہ منورہ جا پہنچے، پھر جب دوسرا سال آیا تو آپ بدستور شام کی مسجد میں تشریف لے گئے اور اس عابد سے کہا کہ میرے ہمراہ چلو، چنانچہ وہ چل پڑا آپ نے چند لمحوں میں اسے سال گزشتہ کی طرح تمام مقدس مقامات کی زیارت کرا دی، پہلے ہی سال کے واقعہ سے وہ شخص بے انتہا متاثر تھا ہی، کہ دوسرے سال بھی ایسا ہی واقعہ ہو گیا اب کی مرتبہ اس نے مسجد شام واپس پہنچتے ہی ان کا دامن تھام لیا اور قسم دے کر پوچھا کہ فرمائیے آپ اس عظیم کرامت کے مالک کون ہیں ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں محمد ابن علی (امام محمد تقی ہوں) اس نے بڑی عقیدت اور تعظیم و تکریم کے مراسم ادا کیے۔ 

آپ کے واپس تشریف لے جانے کے بعد یہ خبر بجلی کی طرح تمام لوگوں میں پھیل گئی۔ جب والی شام محمد بن عبد الملک کو اس کی اطلاغ ملی اور یہ بھی پتا چلا کہ لوگ اس واقعہ سے بے انتہا متاثر ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اس عابد پر مدعی نبوت ہونے کا الزام لگا کر اسے قید کر دیا اور پھر شام سے منتقل کرا کے عراق بھجوا دیا۔ اس نے والی کو قید خانہ سے ایک خط بھیجا جس میں لکھا کہ میں بے خطا ہوں، مجھے رہا کیا جائے، تو اس نے خط کی پشت پر لکھا کہ جو شخص تجھے شام سے کوفہ اور کوفہ سے مدینہ اور وہاں سے مکہ اور پھر وہاں سے شام پہنچا سکتا ہے، اپنی رہائی میں اسی کی طرف رجوع کرو۔ 

اس جواب کے دوسرے دن یہ شخص مکمل سختی کے باوجود، سخت ترین پہرہ کے ہوتے ہوئے قید خانہ سے غائب ہو گیا۔

 علی بن خالد راوی کا بیان ہے کہ جب میں قید خانہ کے پھاٹک پر پہنچا تو دیکھا کہ تمام ذمہ داران حیران و پریشان ہیں، اور کچھ پتا نہیں چلا کہ عابد شامی زمین میں سما گیا یا آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ شیخ مفید فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے علی بن خالد جو دوسرے مذہب کا پیرو تھا، امامیہ مسلک کا معتقد ہو گیا۔

 

شواہد النبوت ص 205

 

نور الابصار ص 146

 

اعلام الوری ص 731

 

الارشاد، مفید ص 481

ای میل کریں