عشرۂ کرامت کی کرامتیں
تحریر: مولانا سید غافر رضوی چھولسی،مدیر ساغر علم دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। ایک کریمہ اور ایک کریم کی ولادتوں کے درمیانی وقفہ کو عشرۂ کرامت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ پہلی ذیقعدہ ولادت کریمۂ اہلبیت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا اور گیارہ ذیقعدہ ولادت امام ضامن وثامن حضرت امام رضا علیہ السلام۔
جیسے محرم کی چاند رات سے دسویں محرم تک غم و اندوہ کا عشرہ منایا جاتا ہے ویسے ہی عشرۂ کرامت خوشی اور مسرت کا عشرہ شمار کیا جاتا ہے۔
در حقیقت عشرہ کا مطلب ہوتا ہے دس دن، چونکہ ولادت معصومۂ قم سلام اللہ علیہا اور ولادت امام رضا علیہ السلام کے درمیان دس دن کا فاصلہ ہے اسی لئے عشرۂ کرامت کا نام دیا گیا ہے۔
دس دن کے فاصلہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ دونوں کی ولادت ایک ہی سال میں دس دن کے فاصلہ سے ہوئی ہے! نہیں... بلکہ امام رضا علیہ السلام کی ولادت ١١/ذیقعدہ ١٤٨ .ھ میں ہوئی اور جناب معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کی ولادت١ /ذیقعدہ ١٧٣.ھ میں ہوئی یعنی جناب معصومۂ قم سلام اللہ علیہا اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام سے تقریبا پچیس سال چھوٹی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عشرۂ کرامت ، سال کے اعتبار سے نہیں بلکہ صرف تاریخی فاصلہ کے اعتبار سے منایا جاتا ہے۔
ایران میں عشرۂ کرامت کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور شیعیانِ حیدرِ کرار یہ سوچ کر خوشیاں مناتے ہیں کہ رب کریم نے کریمۂ اہلبیت اور امام کریم کے صدقہ میں ہمیں مسلکِ ولایت پر گامزن کیا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ عشرۂ کرامت کے موقع پر شکرانہ کے طور پر خوشیاں منائیں اور اس کی کرامتوں کا اندازہ لگائیں، اس عشرہ میں اپنے دلوں کی باتیں رب کریم تک پہنچائیں اور اپنی دلی مرادیں پائیں۔
لیکن عشرۂ کرامت کا ایران میں عظیم شان و شوکت کے ساتھ منائے جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ عشرہ صرف ایران سے ہی مخصوص ہے بلکہ تمام دنیا میں جہاں جہاں شیعیانِ حیدر کرار موجود ہیں ان سب کا فریضہ ہے کہ وہ سب اس مبارک موقع پر خوشیاں منائیں اور دنیا والوں پر یہ ثابت کردیں کہ ہماری ایک عید یہ بھی ہے جو دس دن تک منائی جاتی ہے۔
ایک مرتبہ سچے دل سے اس موقع پر کچھ پروگرام منعقد تو کرکے دیکھئے تب احساس ہوگا کہ عشر ۂ کرامت کی کرامتیں کیسے ظاہر ہوتی ہیں!۔
رب کریم کے خزانہ میں سب کچھ موجود ہے ذرا کریمۂ اہلبیت کو وسیلہ تو بنائیں، ذرا امام کریم کا واسطہ تو دیکر دیکھیں!!
یہ کیسے ممکن ہے کہ امام کریم یا کریمۂ اہلبیت کا واسطہ دیا جائے اور رب کریم اپنے خزانۂ کرم سے کرامتوں کی بارش نہ کرے!۔
ولادت معصومۂ قم سلام اللہ علیہاسے ولادت امام رضا علیہ السلام کے درمیان، نور کی برسات، الٰہی پیغامات کی ترویج اور خوشیوں کے موتی لٹا کر منحوس وبا کو نابود کرنے کی دعاکی قبولیت کا بہترین موقع ہے۔
عطرآلود فضاؤں سے اپنے ضمیر کو معطر کرنے کا موقع فراہم ہوا ہے تو ہمیں اس موقع کو گنوانا نہیں چاہئے۔ بلکہ عقل مند انسان وہ ہے جو موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے قدم آگے بڑھائے؛ اب یہ ہمارے اوپر موقوف ہے کہ ہم اپنی عقل کا استعمال کرتے ہیں یا نہیں!۔
عشرۂ کرامت کے پرمسرت موقع پر آسمان ولایت و عصمت کے درخشاں ستاروں کی بھینی بھینی روشنی میں منطقی اعتبار سے اپنی حکمت عملی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے دامن امید کو پھیلائیں اور یہ اعتقاد رکھیں کہ ان ایام میں کی ہوئی دعا باب اجابت سے ضرور ٹکرائے گی کیونکہ یہ ایام ایسے ایام ہیں جو ایک بھائی اور ایک بہن سے عمیق رشتہ کواجاگر کرتے ہیں، تاریخ اسلام میں یا تو امام حسین علیہ السلام اور جناب زینب سلام اللہ علیہا بھائی بہن ملتے ہیں یا پھر امام رضا علیہ السلام اور معصومۂ قم سلام اللہ علیہا کی محبت آشکار ہوتی ہے:
یاد آگئی محبت زینب حسین سے
بھائی کا تذکرہ ہے بہن کے جوار میں (فلکؔ چھولسی)
آخر کلام میں عشرۂ کرامت میں پیدا ہونے والی دونوں ہستیوں امام کریم اور کریمۂ اہلبیت کا واسطہ دے کر دعا کرتے ہیں کہ اے رب کریم! شیعیان حیدر کرار پر کرم فرما اور اپنی کرامتوں کے دروازے کھول دے تاکہ ہم خود کو اس قابل بنا سکیں کہ تیری آخری حجت کے کی کرامتوں کا نظارہ کرسکیں ۔