میں اپنے بارے میں بتاتا ہوں
میں اس وقت جو سوال پوچھنا چاہتا ہوں اس کے سلسلے میں آپ کو منصف قرار دیتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ انصاف سے کام لیتے ہوئے غور وفکر کے بعد، تصدیق کریں اور وہ سوال یہ ہے کہ اگر نبی اکرم(ص)، جو کہ صادق ومصدّق ہیں ، آپ سے کہیں کہ اگر تم ساری زندگی خدا کی عبادت کرو، اس کے اوامر کی اطاعت کرو اور خواہشات نفسانی کو ترک کرو؛ یا اپنی ساری زندگی اس کے فرامین کے برخلاف گزارو اور خواہشات نفسانی کے مطابق زندگی بسر کرو، تمہارے اخروی درجات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور دونوں صورتوں میں تم نجات یافتہ ہو۔ تم جنت میں جاؤگے اور عذاب سے محفوظ رہوگے۔ نماز پڑھو یا زنا کرو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن حق تعالیٰ کی رضا صرف یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، اس کی ثنا ومدح کرو، خواہشات نفسانی کو دنیوی زندگی میں ترک کردو اور اس کا تمہیں اجر نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی ثواب دیا جائے گا، تو کیا تم معصیت کرنے والوں میں سے ہوتے یا عبادت گزاروں میں سے؟ کیا تم خواہشات نفسانی ترک کردیتے اور خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کی خاطر لذات نفسانی کو اپنے اوپر حرام قرار دیتے یا نہیں ؟ یا پھر بھی تم مستحبات، نماز جمعہ اور نماز باجماعت کی طرف رغبت رکھتے یا تم خواہشات نفسانی میں غرق ہوتے اور لہو ولعب اور موسیقی وغیرہ کا دامن نہ چھوڑتے؟ انصاف سے کام لیتے ہوئے ظاہرداری اور ریاکاری کے بغیر جواب دیں ۔
میں اپنے اور ان افراد کے بارے میں جو مجھ جیسے ہیں کہتا ہوں کہ ہم گناہگار ہوتے، طاعت کو ترک کرتے اور خواہشات نفسانی کے مطابق عمل کرتے۔ پس اس سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ہمارے تمام کام لذات نفسانی اور شکم وفرج کی خاطر ہیں۔ ہم شکم پرست اور شہوت پرست ہیں ۔ ہم کسی لذت کو اس سے بڑی لذت کے حصول کی خاطر ترک کرتے ہیں ۔ ہمارا مطمح نظر شہوات ہیں۔ نماز، جو کہ قرب الٰہی کی معراج ہے، کو ہم جنت کی عورتوں کے قرب کیلئے بجالاتے ہیں ۔ اس کا حق تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ۔ اس کا اطاعت امر سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی سے کوسوں دور ہے۔
چہل حدیث (قدیم ایڈیشن)، ص ۶۱