رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں کہا کہ مسئلہ فلسطین ابھی بھی امت مسلمہ کا سب سے اہم اور زندہ مسئلہ ہے، ظالم سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیوں نے ایک قوم کا ہاتھ اس کے گھر سے ، اس کے آبائی وطن اور آبائی زمین سے منقطع کردیا ہے اور اس کے بدلہ میں اس نے ایک دہشت گرد حکومت اور غیر ملکی عوام کا قیام عمل میں لایا ہے، صیہونی حکومت کے قیام کی خالی منطق سے زیادہ کمزور اور بے بنیاد کیا ہے؟ یوروپیوں کا دعوی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں پر ظلم کیا گیا تھا ، لہذا مغربی ایشیاء میں کسی قوم کو بے گھر کرکے اور اس ملک میں ظلم کرکے یہودیوں کا بدلہ لیا جانا چاہئے ...! یہی وہ منطق ہے جس پر مغربی حکومتوں نے صیہونی حکومت کی اپنی احمقانہ اور اندھی حمایت کے ساتھ انحصار کیا ہے اور اس طرح انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں اپنے جھوٹے دعوؤں کو غلط قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز اور رونے کی کہانی ستر برسوں سے جاری ہے اور اب اس میں مزید پتے ڈالے جارہےہیں، صہیونیوں نے مقبوضہ فلسطین کو روز اول سے ہی دہشت گردی کا اڈہ بنا دیا ہے، اسرائیل کوئی ملک نہیں ، بلکہ فلسطینی عوام اور دیگر مسلم اقوام کے خلاف دہشت گردی کا ایک مرکز ہے، اس بدبخت حکومت کے خلاف جنگ ظلم اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ہےجو ایک عوامی فریضہ ہے۔
رہبر معظم نے کہا کہ قابل ذکر ہے کہ اگرچہ غاصب حکومت 1948 میں قائم ہوئی تھی لیکن اسلامی خطے میں اس حساس مقام پر حملے کی تیاریاں کئی سال قبل شروع ہوئی تھیں،ان سالوں میں سیکولرازم ، انتہا پسندی اور اندھی قوم پرستی کی حکمرانی کے لئے ، اور مغرب کی طرف سے ہیرا پھیری کے ذریعہ آمرانہ حکومتوں کو اقتدار میں لانے کے لئے اسلامی ممالک میں مغرب کی فعال مداخلت کی گئی، ایران، ترکی اور مغربی ایشیاء کے عرب ممالک سے لے کر شمالی افریقہ تک کے ان برسوں کے واقعات کے مطالعے سے اس تلخ حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ امت مسلمہ میں کمزوری اور تقسیم نے فلسطین کے قبضہ اور استکبار کی تباہ کن تباہی کی راہ ہموار کردی جس سے عالم اسلام اورامت مسلمہ شدید نقصان پہنچا۔
یہ ایک سبق ہے کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم دونوں بلاک صیہونیوں کے ساتھ متحد تھے، برطانیہ نے اس سازش کی اور اس کا پیچھا کیا ، صہیونی سرمایہ داروں نے اسے رقم اور اسلحے کے ذریعہ انجام دیا ، اور سوویت یونین پہلی حکومت تھی جس نے غیر قانونی ریاست کے قیام کو باضابطہ شکل دی اور وہاں یہودیوں کی بڑی تعداد کو بھیج، غاصب حکومت ایک طرف اسلامی دنیا میں جاری صورتحال کی پیداوار تھی اور دوسری طرف یہ سازش اور یورپی جارحیت پرمبنی تھی، تاہم آج کی دنیا پہلے کی طرح نہیں ہے، ہمیں ہمیشہ اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہئے، آج طاقت کا توازن عالم اسلام کے حق میں بدل گیا ہے، یورپ اور امریکہ کے مختلف سیاسی اور معاشرتی واقعات نے مغرب کی گہری ساختی ، انتظامی ، اور اخلاقی کمزوریوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا ہے، ریاستہائے متحدہ میں انتخابی معاملات اور ان کے متکبروں کے اندوہناک امتحان کے ساتھ ساتھ ریاستہائے متحدہ اور یورپ میں کرونا وائرس کے ساتھ ایک سال کی ناکام محاذ آرائی اور اس کے شرمناک حاشیے نیز یورپی ممالک میں حالیہ سیاسی اور معاشرتی انتشاران تمام ممالک کے زوال کی علامتیں ہیں۔