غاصب صیہونی رژیم کیخلاف قانونی جدوجہد جاری رکھیں، حتی کہ استصواب رائے پر مبنی آپکا مطالبہ مان لیا جائے، آیت اللہ خامنہ ای

غاصب صیہونی رژیم کیخلاف قانونی جدوجہد جاری رکھیں، حتی کہ استصواب رائے پر مبنی آپکا مطالبہ مان لیا جائے، آیت اللہ خامنہ ای

رہبر انقلاب اسلامی نے اس حقیقت پر زور دیتے ہوئے کہ صیہونیوں نے پہلے دن سے ہی فلسطین کو دہشتگردی کے اڈے میں بدل دیا تھا

غاصب صیہونی رژیم کیخلاف قانونی جدوجہد جاری رکھیں، حتی کہ استصواب رائے پر مبنی آپکا مطالبہ مان لیا جائے، آیت اللہ خامنہ ای

 

اسلام ٹائمز۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج یوم القدس کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم سے براہ راست خطاب کیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں فلسطینی مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اپنی قانونی و اخلاقی جدوجہد کو تب تک جاری رکھیں جب تک کہ استصواب رائے پر مبنی آپ کے اس ترقی پسند مطالبے کو مان نہیں لیا جاتا۔ انہوں نے مسئلۂ فلسطین کو امتِ مسلمہ کا اہم ترین اور زندہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نظامِ سرمایہ داری کی ظالم سیاستوں نے ایک قوم کو بے گھر کر کے اس کی جگہ دہشتگرد رژیم اور اجنبی لوگوں کو لا بٹھایا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے غاصب صیہونی رژیم کی انتہائی متزلزل بنیادوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ یورپیوں نے اپنے دعوے کے مطابق دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں پر ظلم ڈھایا ہے اور انہی کے بقول یہودیوں کا انتقام مغربی ایشیاء کی ایک قوم کو بے گھر کر کے اور اس کی سرزمین پر انتہائی دلخراش قتل و غارت پھیلا کر لیا جانا چاہئے چاہے اس طرح سے انسانی حقوق پر مبنی خود انہی کے تمام جھوٹے دعوں کا دھڑن تختہ ہی کیوں نہ ہو جائے!!

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس حقیقت پر زور دیتے ہوئے کہ صیہونیوں نے پہلے دن سے ہی فلسطین کو دہشتگردی کے اڈے میں بدل دیا تھا، کہا کہ اسرائیل کوئی "ملک" نہیں بلکہ وہ فلسطینی اور دوسری مسلمان اقوام کے خلاف تشکیل دیا گیا "دہشتگردی کا ایک اڈہ" ہے لہذا اس کے خلاف جدوجہد "ظلم و دہشتگردی کے خلاف جدوجہد" ہے جو ایک "عوامی فریضہ" ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے غاصب صیہونی رژیم کی تشکیل سے قبل "خطے میں وسیع مغربی مداخلت" اور "خطے میں آمر و کٹھ پتلی حکومتوں کو برسراقتدار لانے" پر مبنی واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے "امتِ مسلم کی کمزوری اور تفرقے" کو فلسطینی سرزمین کے غصب کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ اس زمانے میں کیپیٹلزم (سرمایہ داری) و کمیونزم کے حامل دونوں کیمپ "صیہونی بنیوں" کے ساتھ باہمی اتفاق پر پہنچ چکے تھے جبکہ اصلی سازش برطانیہ کی تھی درحالیکہ اس پر عملدرآمد صیہونی سرمایہ داروں کی دولت اور اسلحے کے ذریعے کیا گیا تاہم اس غیر قانونی رژیم کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والی "سوویت یونین" تھی جس کے بعد پوری دنیا سے یہودیوں کو لا لا کر وہاں پہنچانا شروع کر دیا گیا۔

 

آیت اللہ خامنہ ای نے آج کی عالمی صورتحال اور دفاعی توازن کو "عالم اسلام کے حق میں" قرار دیا اور یورپ و امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے حالیہ سیاسی و اجتماعی حوادث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حوادث یورپی کیمپ کی تنزلی و سقوط کی علامات ہیں۔ انہوں نے مغربی دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ان اختلالات کو یورپ کے برعکس امتِ مسلمہ کے لئے پر امید اور اسلامی اقوام کی توانائیوں میں اضافہ کرنے والا قرار دیا اور کہا کہ حساس ترین اسلامی خطوں میں مزاحمتی فورسز کی پیشرفت اور ان کی دفاعی و حملہ ورانہ صلاحیتوں میں ترقی؛ بذات خود مسلم اقوام کی بیداری و امید میں اضافہ ہے جبکہ ان اقوام کی اپنے حال سے آگاہی، ان کی امید و اسلامی شعاروں کی جانب ان کے رجحان میں اضافہ اور مسلمان اقوام کی علمی ترقی اور ان میں آزادی و استقلال کی امنگ؛ دراصل بہتر مستقبل کی نوید ہے۔

 

رہبر معظم نے مسئلۂ فلسطین اور قدس شریف کے مستقبل کے حوالے سے مسلم ممالک کے درمیان ہمآہنگی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمآہنگی صیہونی دشمن اور امریکی و یورپی چمچوں کے لئے خوف کی علامت ہے جبکہ ناکام سازش "صدی کی ڈیل" اور غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ چند ایک کمزور عرب حکومتوں کی جانب سے معمول کے دوستانہ تعلقات کی استواری؛ اس "خوف کی علامت" سے بچنے کی مایوسانہ کوششیں ہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ میں دوٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ کوششیں کسی نتیجے پر نہ پہنچیں گی درحالیکہ غاصب صیہونی رژیم کا زوال و انحطاط شروع ہو چکا ہے جو کسی طور رُکنے والا نہیں۔ انہوں نے "فلسطینی سرزمیوں پر مزاحمت کا تسلسل اور جہاد و شہادت کے رستے کی مضبوطی" اور "پوری دنیا کے ممالک اور مسلم اقوام کی جانب سے فلسطینی مجاہدین کی کھلی حمایت" کو مستقبل کا تعین کرنے والے دو اہم عوامل قرار دیا اور کہا کہ یہ اجتماعی حرکت؛ دشمن کی تمام سازشوں کو مٹی میں ملا کر رکھ دینے والی ہے جبکہ تمام حکام، دانشوروں، علماء، جماعتوں، گروہوں اور جوانوں سمیت ہر شخص کو ان مقاصد کے حوالے سے اپنا کردار متعین کرتے ہوئے ان مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا چاہئے۔

 

ایرانی سپریم لیڈر نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں عربی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے عرب جوانوں کو مخاطب کیا اور اپنی گفتگو کے آغاز میں عرب دنیا کے تمام آزاد انسانوں؛ خصوصا جوانوں، فلسطین و قدس شریف کے مزاحمتکاروں، مسجد اقصی کے مرابطوں (مرابطات) اور اسی طرح مزاحمتی محاذ کے شہداء خصوصا شیخ احمد یسین، سید عباس موسوی، فتحی شقاقی، عماد مغنیہ، عبدالعزیز رنتیسی، ابومہدی المہندس اور مزاحمتی محاذ کے شہداء میں درخشاں چہرہ شہید جنرل قاسم سلیمانی پر سلام بھیجا اور فلسطینیوں کی جدوجہد اور شہیدوں کے پاک خون کو مزاحمتی پرچم کے بلند رہنے کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ فلسطینی جوان جو ایک دن پتھر پھینک کر اپنا دفاع کرتا تھا، آج اپنے ہدف کے عین اوپر لگنے والے میزائلوں کے ذریعے دشمن کا جواب دیتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ 70 سال پر محیط قبضے، نسل پرستی، قتل و غارت، حبس بے جا اور شریف انسانوں کو دیئے جانے والے طرح طرح کے شکنجے فلسطینیوں کے ارادے کو ہرگز شکست نہیں دے پائے، کہا کہ فلسطین زندہ ہے اور اپنے جہاد کو جاری رکھے گا جبکہ قدس شریف سمیت پورے کا پورا فلسطین اس کے رہائشیوں تک لوٹ آئے گا!

 

آیت اللہ خامنہ ای نے سب مسلم حکومتوں اور اقوام کو مسئلۂ فلسطین کے حوالے سے ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ البتہ پوری جدوجہد کا مرکز خود فلسطینی ہیں جن کی کل آبادی، آج فلسطینی سرزمین پر اور دوسرے ممالک میں کل 1 کروڑ 40 لاکھ ہے جبکہ ان کا باہمی اتحاد ایک بہت بڑے معرکے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے "باہمی وحدت" کو فلسطینیوں کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا اور خود فلسطینی معاشرے میں اس کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس وحدت کا مرکز اندرونی جہاد اور دشمن پر عدم اعتماد ہونا چاہئے جبکہ فلسطینیوں کے اصلی دشمنوں یعنی امریکہ، برطانیہ اور خبیت صیہونیوں پر فلسطینی سیاست کا تکیہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے غزہ، قدس، مغربی کنارے، 1948ء کی سرزمینوں اور کیمپوں میں موجود تمام فلسطینیوں کی جانب سے "باہمی ارتباط کی حکمت عملی" اختیار کئے جانے پر تاکید کی اور کہا کہ تمام فلسطینی ایک ہیں جبکہ سختی کے دنوں میں انہیں چاہئے کہ ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہوئے وہ اپنے پاس موجود تمام ہتھیاروں کا استعمال کریں!!

 

رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطینیوں کے حق میں تبدیل ہونے والے خطے کے دفاعی توازن اور غاصب صیہونی رژیم کے گہرے و ہمہ جانبہ ضعف پر مبنی امیدوارانہ نمونوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی فوج جو خود کو "ناقابل شکست" قرار دیتی تھی، آج ایک ایسی فوج میں بدل چکی ہے جو "کبھی کامیابی کا منہ تک نہیں دیکھے گی" جبکہ اس رژیم کی سیاست کا حال یہ ہے کہ 2 سالوں کے دوران اُنہیں 4 مرتبہ انتخابات کروانا پڑے ہیں اور سکیورٹی کے حوالے سے بھی وہ پے در پے شکست کھا رہے ہیں درحالیکہ اپنے اپنے ملکوں کو واپس پلٹنے پر مبنی یہودیوں کی روز بروز بڑھتی "معکوس مہاجرت" اس بلند و بانگ دعوے کرنے والی غاصب صیہونی رژیم کے لئے کلنک کا ٹیکہ بن چکی ہے۔

 

آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی مدد کے ذریعے چند ایک کمزور و حقیر عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لئے غاصب صیہونی رژیم کی سرتوڑ کوششوں کو اسرائیلیوں کی شدید کمزوری کی ایک اور علامت قرار دیا اور کہا کہ یہ تعلقات غاصب صیہونی رژیم کے کسی کام آنے والے نہیں! بالکل ویسے ہی جیسے وہ آج سے دسیوں سال قبل سے مصر کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے بعد؛ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ البتہ وہ ممالک بھی ان تعلقات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے کیونکہ صیہونی دشمن ان کے مال و سرزمین پر قبضہ جما کر ان کے درمیان کرپشن و بدامنی کو رواج دینا چاہتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی کہ مسلمان و عیسائی علماء کو چاہئے کہ وہ (غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ) تعلقات استوار کئے جانے کو شرعی طور پر حرام قرار دیں جبکہ دانشمندوں اور آزاد انسانوں کو چاہئے کہ تعلقات کی استواری کے نتیجے کو جو "فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے" جیسا ہے، سب کے لئے کھل کر بیان کریں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخر میں غاصب صیہونی رژیم کے زوال کے سلسلے کو مزاحمتی محاذ کی توانائیوں میں اضافے کا سلسلہ قرار دیا اور کہا کہ دفاعی و فوجی طاقت میں اضافہ، موثر اسلحے کی تیاری میں خود کفیلی، مجاہدین کا اعتماد بہ نفس، جوانوں کی روز افزوں آگاہی، پورے فلسطین اور اس سے باہر مزاحمتی دائرۂ کار کی توسیع، مسجد اقصی کے دفاع کے لئے جوانوں کا حالیہ قیام اور دنیا بھر کے بہت سے خطوں کی رائے عامہ میں فلسطینی قوم کی مجاہدت اور ان کی مظلومیت کی جانب مسلسل توجہ؛ یہ سب حقائق "درخشاں مستقبل" کی بشارت دینے والے ہیں۔

 

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "فلسطین کے سیاسی نظام کے تعین کے لئے فلسطین کے تمام اصلی باشندوں سے استصواب رائے" کو فلسطینی جدوجہد کی منطق کہا اور اسے ایک ترقی پسند و جذاب منطق قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس منطق کی بنیاد پر، جو اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کی دستاویزات میں بھی ثبت ہو چکی ہے؛ فلسطینی مجاہدین کسی بھی قوم و دین سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے اصلی باشندوں کے درمیان استصواب رائے کروا سکتے ہیں جس کا نتیجہ اس ملک کے سیاسی نظام کا تعین کرے گا؛ ایک ایسا سیاسی نظام جو بے گھروں کو واپس لے کر آئے گا اور وہاں آ کر آباد ہو جانے والے اجنبیوں کے مقدر کا فیصلہ کرے گا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ترقی پسند، غیر قابل مناقشہ اور رائج جمہوریت پر مبنی اس مطالبے کے حصول پر تاکید کی اور فلسطینی مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف اپنی قانونی و اخلاقی جدوجہد کو جاری رکھیں حتی کہ آپ کا یہ مطالبہ مان لیا جائے۔

ای میل کریں