شہادت ہماری وراثت ہے

شہادت ہماری وراثت ہے

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ہمارا یہ جذبہ سست ہوا، ہمیں نقصان ہی ہوا ہے

شہادت ہماری وراثت ہے

 

تحریر: سیدہ حجاب زہراء نقوی

 

شہداء چراغ ہیں۔ وہ خود آتشِ عشق میں جل کر سونا بن چکے ہیں۔ اب ہماری باری ہے کہ اس راہ کو مزید روشن کریں۔ خداوند کی روشن دلیلوں میں سے ایک دلیل اور رحمت وہ لوگ ہیں جنہوں نے راہ حق میں عظیم قربانیاں پیش کیں اور اپنی جان خوشنودی خدا کی خاطر نچھاور کر دی۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے توحید کی ملکوتی آواز پر لبیک کہا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نجات کا جھنڈا گاڑا، تاکہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو نجات کا راستہ مل سکے۔ ہم سے پہلے شہیدوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے اور فلسفہِ شہادت کو دنیا میں روشناس کروانے میں کامیاب رہے، اب ہماری باری ہے اور ہمارا کام ہے کہ انکے مقصد کو اپنا لہو دے کر زندہ رکھیں اور آنے والوں کے لیے اس راہ کو مزید روشن کریں۔ اس کے لیے ہمیں باتوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ شہدا کا لہوں امانت ہے ہمارے پاس، اس لہو کو ہمیں آگے آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا ہے۔

 

خیال رکھیں۔۔۔!! امانت میں خیانت نہ ہو۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے دور کے حق و باطل سے آگاہ رہیں اور دوسروں کو آگاہ کریں۔ شہداء کے پیغام کو اگلی نسلوں میں منتقل کریں اور اس راہ حق پر قائم رہیں، حتیٰ کہ موت ہمیں گلے لگا لے۔ اگر زندگی پسند ہے تو ہم دنیا کی اس گندگی میں کیوں زندگی گزاریں؟ نکلتے ہیں اس دنیا کی زندگی سے اور حقیقی زندگی کو گلے لگاتے ہیں اور جامِ شہادت کی طرف بڑھتے ہیں۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو شہادت ہماری ہی وراثت ہے۔ کیا شہید عارف حسین الحسینی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہم میں سے نہیں تھے۔ شہادت کے حقیقی وارث ہونے کی حیثیت سے صرف مسلمان ہی وہ قوم ہے، جو کل بھی شہادت کی سچی عاشق تھی اور آج بھی اس جذبہ سے لبریز ہے۔

 

غیروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کی وراثت ہے۔ خصوصاً مکتب اہلِ بیت کے چاہنے والوں کا شہادت سے گہرا ربط ہے، ان کے لیے ہر روز، روزِ عاشورہ ہے، ہر میدان، میدان کربلا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ شہادت ہماری وراثت ہے، جو کہ نسل در نسل سفر کر رہی ہے۔ ہم نے شہادت کو اپنا کر کل بھی دشمن کے دانت کھٹے کیے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ "آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ظالم کی فنا اور اس کی شکست کا راز اپنے عزیزوں کی جانیں قربان کر دینے اور خود قربان ہو جانے ہی میں مضمر ہے اور یہ قربانی ہی دنیا کے فناہ پذیر ہونے تک تمام اقوامِ عالم کے لئے اسلامی تعلیمات کی روشن حروف میں لکھی ہوئی سرخی بن گئی ہے۔ جو قوم شہادت کو اپنے لئے فخر و سعادت سمجھتی ہے، وہ ہمیشہ کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔" (آیۃ اللّٰه روح اللّٰه خمینی)

 

تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ہمارا یہ جذبہ سست ہوا، ہمیں نقصان ہی ہوا ہے۔ اسی لیے شہادت ہماری بقا کا مسئلہ ہے۔ شہادت ہمارا ایمان و وراثت ہے۔ "جو گزر گئے انہوں نے حسین (ع) کا کام انجام دیا اور اب جو باقی بچے، انہیں چاہیئے کہ زینب (س) کا کام انجام دیں، ورنہ یزیدی ہیں۔" (ڈاکٹر علی شریعتی) جو شہید ہوگئے انہوں نے حسین (ع) کا کام انجام دے دیا، اب ہماری باری ہے کہ کردارِ زینبی کو اپناتے ہوئے فلسفہ شہادت کو آگے منتقل کریں، کیونکہ شہادت ہماری وراثت ہے۔

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن

نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

ای میل کریں