امام خمینی(رہ) اور عید نوروز
عید نوروز ایک ایسی عید ہے جس کا تعلق ایرانی قدیم مذہب سے ہے ایران میں قدیم زمانے سے اسے عید نوروز کے طور پر منایا جاتا رہا ہے لیکن موجودہ دور میں اسے موسم بہار کے آغاز کے طور پر منایا جاتا ہے لہذا یہ کہنا صحیح ہے کہ نہ ہی یہ کوئی مذہبی عید ہے اور نہ ہی اس عید میں خلاف شریعت امور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر چیز کے کچھ مثبت پہلو ہوتے ہیں اور کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ عید نوروز کے مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی، صلہ رحمی، دوسروں کو تحفے دینا، گھر کو صاف ستھرا کرنا، ایک دوسرے کی دعوت کرنا، غریبوں، ضروتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو مثبت بھی ہیں اور اسلام میں قابل تحسین ہیں اور خود ہر ایک موضوع پر احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کو رغبت دلائی گئی ہے۔ لیکن کچھ منفی پہلو بھی ہیں جیسے علم کی کمی کی بنا پر اس کو مذہبی تہوار سمجھنا، بعض لوگوں کا اسراف کرنا، اس دن گناہوں کا ارتکاب کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس عید کا مذہب اور کسی عقیدے یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایران کے علاوہ بھی بہت سے ممالک میں یہ عید منائی جاتی ہے جیسے افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجیکستان، ازبکستان، آذربائجان وغیرہ وغیرہ اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں اسے منایا نہیں جاتا۔
بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) ہر سال عید نوروز کی مناسبت سے بیانات جاری کرتے تھے اور اس میں وہ ملک کی ترقی اور پیشرفت نیز انقلاب کی کامیابی اور اس کی ترقی کی طرف اشارہ کرتے اور اس عید کی مناسبت سے وہ انسانوں کے اندر تحول اور تبدیلی کے طلبگار تھے کہ جہاں اس عید کی مناسبت سے انسانوں کی مادی زندگی میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہیں معنوی زندگی میں بھی تبدیلیاں رونما ہونا لازمی ہیں۔
حضرت امام خمینی (رہ) اگرچہ اس دن کی مناسبت سے لوگوں اور ملکی عوام کو مبارکباد پیش کرتے تھے اور اسی طرح لوگوں کی طرف سے انہیں مبارکبادی کے پیغامات موصول ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ ہرگز نوروز کے لئے لفظ عید کا استعمال نہیں کرتے تھے، ٹیلیویژن پر معروف اور مشہور دعائے "یا مقلب القلوب و الابصار۔۔۔ " پڑھا کرتے تھے۔ ۱۳۶۲ ھ، ش میں ماہ فروردین کے وسط میں امام (رہ) کے دفتر کے ذریعہ ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی تاکہ ان تمام لوگوں کے جوابات اور ان کا شکریہ ادا کیا جاسکے جنہوں نے ۱۲فروردین یوم اللہ کو نوروز اور یوم خدا کے موقع پر امام (رہ) کو ٹیلیگراف اور مبارکبادی کے پیغام بھیجے تھے جب ان کی خدمت میں اس رپورٹ کو پیش کیا گیا اور اسے مکمل طور پر پڑھا گیا تو اس میں لفظِ عیدِ نوروز کا ذکر تھا امام (رہ) نے لفظِ عید کو مٹانے کے بارے میں فرمایا اور فرمایا کہ صرف لفظِ نوروز لکھیں۔
حضرت امام(رہ) کے پوتے مرتضی اشراقی بیان کرتے ہیں کہ ۱۳۶۸ھ،ش میں نوروز کے موقع پر امام (رہ) کے گھر پر کافی لوگ جمع تھے ہم لوگوں کا بچپنا تھا اور ہم کچھ بچے کھیل رہے تھے اور امام(رہ) کے انتظار میں تھے اچانک حسن آقا دروازے سے داخل ہوئے اور کہا: کیا تم لوگوں نے عیدی کے طور پر کچھ لیا ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا "جلدی سے جاؤ امام(رہ) نے تم تینوں کو بلایا ہے" ہم تیزی سے گئے تو امام(رہ) نے ہمیں اس سال ایک ہزار تومان عید کے نام سے دئے جبکہ اس سے قبل ۱۳۶۵ھ،ش سے ۱۳۶۷ھ، ش تک امام (رہ) ہمیں تین سو تومان عید کے طور پر دیا کرتے تھے۔
حضرت امام (رہ) کے دفتر کے ایک رکن حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین لکھتے ہیں کہ ہم نوروز کے موقع پر امام(رہ) کے کمرے میں داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ امام(رہ) صبح نو بجے کمرے میں داخل ہوئے اور گزشتہ دنوں کی نسبت زیادہ خوش اور مسکراتے ہوئے نظر آ رہے تھے اور وہ نئے کپڑے پہن کر داخل ہوئے نیز انہوں نے وہاں موجود لوگوں کو مبارکباد پیش کی اس کے بعد امام (رہ) نے اپنے ہاتھوں سے کچھ سکّے عیدی کے طور پر سب کو دئے اور یہ واقعہ صرف ایک سال کا نہیں بلکہ کئی سال امام (رہ) کی جانب سے اس طرح کے واقعہ کا ہم نے مشاہدہ کیا۔
نوروز کے بارے میں امام خمینی(رہ) کا نظریہ دوسرے تمام افراد کے نظریات سے مختلف تھا اور اس سلسلہ میں ان کا تاثر بھی بہت اہم اور بہت مختلف تھا بقیہ افراد سے ان کے نظریہ کے اختلاف کی حقیقت یہ تھی کہ امام خمینی (رہ) کا شمار خدا کے عظیم اولیاء میں سے ہوتا ہے اور انہیں دوسروں کی نسبت خدا کا تقرب زیادہ حاصل تھا اسی وجہ سے ان کے نظریات اور ان کے افکار بھی بہت گہرے تھے۔ امام (رہ) اپنی عرفانی نگاہ میں ہر چیز میں خدا کے جلوؤں کا مشاہدہ کرتے تھے اور وہ تمام چیزوں میں خدا کے افعال، آثار اور اس کی صفات کو علم حضوری اور دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے تھے۔ جب بھی عید نوروز کی بات ہوتی تھی تو امام(رہ) انسان کی روح اور اس کی جان میں تبدیلی کو سب سے اہم قرار دیتے تھے جبکہ عام افراد نیچر میں تبدیلی کے قائل تھے۔ امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں حقیقی عید وہ عید ہے جب انسان کے روح اور اس کی جان میں تبدیلی رونما ہو اور اس کے نتیجہ میں معنویت اور تقرب الہی حاصل ہو اور امام خمینی(رہ) حقیقی عید ان افراد کے لئے سمجھتے ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو خدا کی راہ میں قربان کیا ہے اور ان کے بچے اسلام کی راہ میں شہید ہوئے ہیں لہذا امام کی نگاہ میں ہمیں عید کے دن انہیں مبارکباد پیش کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور اپنے پیاروں کو خدا کا مہمان قرار دیا ہے۔ امام خمینی(رہ) کا زاویۂ نظر یہ تھا کہ لوگ عید کے موقع پر کوئی ایسا عمل انجام نہ دیں جو اسلام اور روح اسلام کے منافی ہو، امام خمینی(رہ) اکثر و بیشتر عید نوروز کے موقع پر اپنی اہلیہ کو کافی مقدار میں رقم دیا کرتے تھے تا کہ وہ ضرورتمندوں کے لئے نئے کپڑے مہیا کر سکیں۔