امام جواد علیہ السلام کی تبلیغی سیرت پر سرسری نگاہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی باعظمت زندگی کو مختلف زاویوں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ائمہ معصومیں علیہم السلام کی تبلیغی زندگی بھی ان کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کی طرح نمونۂ عمل ہے۔ جب ہم ان زاویوں سے ان عطیم انسانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے اوپر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کیونکہ یہ پاک انوار ایک لمحے کے لئے بھی اپنی شرعی اور خدائی ذمہ داری سے غافل نہیں تھے۔ امام جواد علیہ السلام کی تبلیغی زندگی میں مندرجہ ذیل نکات اہم اور قابل غور ہیں:
۱۔ مناظرہ کے ذریعہ تبلیغِ دین
زمانے کی حکومت نے امام علیہ السلام کے لئے ایسے شرائط فراہم کئے کہ لوگوں سے ان کا رابطہ منقطع ہو جائے اور ان کے چاہنے والے ان سے رابطہ قائم رکھنے میں ناکام رہیں اور مناظروں کی محفل سجانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ معاذاللہ لوگوں کے سامنے امام علیہ السلام کی منزلت کو کم کیا جائے لیکن امام جواد علیہ السلام نے اسی فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الہی ذمہ داری کو نبھانے کی کوشش کی اور حکومت کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنایا۔ امام جواد علیہ السلام کی سب سے نمایاں تبلیغ، مناظرہ کی صورت میں تھی امام علیہ السلام کے مناظرات ان کی امامت کے ابتدائی دنوں سے ہی آغاز ہو گئے تھے اور امام علیہ السلام نے حق اور حقیقت اور امامت کو ثابت کرتے ہوئے زمانے کے ظالموں و ستمگروں کا بھرپور مقابلہ کیا۔ امام علیہ السلام نے مناظروں کے ذریعہ دو اہم کام انجام دئے: سب سے پہلے شیعوں کی ضرورت اور اپنے معنوی مقام کو پہچنوانے کی کوشش کی کیونکہ بہت سے افراد آپ کی کم سنی پر معترض تھے اور دوسرے مامون اور معتصم کی چالاکیوں کا مقابلہ کیا جو آپؑ کے مقام کو نیچا کرنے اور لوگوں کے درمیان خدا کا نمائندہ نہ ہونے کا پیغام دینے کی کوشش کر رہے تھے کہ امام جواد علیہ السلام خدا کی جانب سے نمائندہ نہیں ہیں۔ خلفاء کی کوشش یہ تھی کہ وہ مناظروں کی صورت میں لوگوں کے درمیان امام علیہ السلام کی مقبولیت کو کم کریں لیکن ان ہی مناظروں کے ذریعہ خدا نے انہیں لوگوں کے درمیان زیادہ مقبول بنا ڈالا۔
مناظروں میں امام علیہ السلام کے مقاصد:
۱۔ اپنی امامت کا اثبات: امام جواد علیہ السلام نے مناظروں میں اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی اور مورّخین کے مطابق وہ اپنی کمسنی میں ہی کئے جانے والے متعدد سوالوں کے جوابات دیتے تھے جس کے نتیجہ میں لوگ دھنگ اور حیران رہ جاتے تھے۔
۲۔ جھوٹوں کو رسوا کرنا: امام علیہ السلام مناظروں میں ایسا کارنامہ انجام دیتے تھے تاکہ خلفاء کے خود ساختہ فضائل لوگوں کے سامنے عیاں ہو جائیں۔ مامون کی طرف سے سجائی گئی ایک محفل میں یحیٰ بن اکثم کے ساتھ امام علیہ السلام مناظرہ اور اسی طرح سے دوسرے مناظر تاریخی کتابوں میں درج ہیں۔
۳۔ مامون کی حکومت کے خلاف عملی اقدام: خلیفہ مامون امام علیہ السلام کا سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ احترام کیا کرتا تھا لیکن یہ چیز ہرگز سبب نہ بن سکی کہ امام علیہ السلام بھی دلی طور پر اس سے محبت سے پیش آئیں کیونکہ امام سمجھتے تھے کہ وہ سیاسی اعتبار سے مجھ سے محبت کر رہا ہے اور حقیقت میں اس کے دل میں میری محبت نہیں ہے،کیونکہ امام علیہ السلام کی نظر میں وہ ایک ظالم اور ستمگر شخص تھا۔ امام جواد علیہ السلام کو زمانے کے خلفاء نے ایسے شرائط میں رکھا کہ وہ اپنے لوگوں سے زیادہ رابطہ نہیں رکھ سکتے تھے لیکن اس کے باوجود آپؑ کے بہت سے چاہنے والے آپؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر فیضیاب ہوتے تھے اور وہ امام علیہ السلام کے دینی علوم حاصل کر کے معاشرے میں خدمات انجام دیتے تھے۔
۴ دینی تعلیم کی ترویج: امام جواد علیہ السلام نے دینی طلاب کی پرورش کو بھی اپنے کارنامے میں رکھا امام علیہ السلام نے امام صادق علیہ السلام کی قائم کردہ یونیورسٹی کے سلسلے کو جاری رکھا اور تین سو کے قریب شاگردوں کی تربیت کی۔
۵۔ مختلف مقامات پر نمائندوں کو بھیجنا: امام جواد علیہ السلام بنی عباس کی منحوس تبلیغات کو ناکام بنانے اور اسلام ناب کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں اپنے نمائندوں کو بھیجتے تھے اور وہ نمائندے امام علیہ السلام کے سفیر سمجھے جاتے تھے اور اہواز، ہمدان، سیستان، بست، بغداد اور قم جیسے مراکز میں شیعوں اور امام علیہ السلام کے درمیان رابطہ اور اتحاد فراہم کرتے تھے۔ امام علیہ السلام اپنے پیروکاروں کو حکومتی حلقوں میں داخل ہونے اور حساس عہدوں پر فائز ہونے کی اجازت دیتے تھے محمد بن اسماعیل بن بزیع اور احمد بن حمزہ قمی نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے حکومت کے ممتاز مقامات پر پہنچ کر دین اور دینداروں کی خدمت کی۔
امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری اسلام، قرآن کی ترویج اور عدل الہی پر مبنی حکومت کی تشکیل تھی جس کے لئے انہوں تلاش و کوشش کی اسی وجہ سے انہیں قیدی اور جلاوطنی کی زندگی بسر کرنا پڑی اور آخر کار وہ اپنے زمانے کے ظالموں اور ستمگروں کا تختہ الٹنے کے راستے میں شہید ہو گئے اور آج ہمیں فخر ہے کہ ہم قرآن، سنت اور ان کے مقاصد کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں اور ہماری قوم کے مختلف طبقے اس عظیم الشان راستے میں خدا کی خاطر اپنی جان، مال اور عزیزوں کی قربانی پیش کر رہے ہیں۔