اسلامی انقلاب؛ موسی (علیہ السلام) کے سمندر پار کرنے کی طرح

اسلامی انقلاب؛ موسی (علیہ السلام) کے سمندر پار کرنے کی طرح

دشمن کی مختلف فتنہ انگیزیوں، مسلط کردہ جنگ، پابندیوں، دہشت گردیوں، دائمی نرم جنگ، اندرونی و علاقائی اور عالمی مسائل کے باوجود اسلامی نظام کا قیام و استحکام، ایک عظیم کارنامہ ہے

اسلامی انقلاب؛ موسی (علیہ السلام) کے سمندر پار کرنے کی طرح

 

ابنا۔ دشمن کی مختلف فتنہ انگیزیوں، مسلط کردہ جنگ، پابندیوں، دہشت گردیوں، دائمی نرم جنگ، اندرونی و علاقائی اور عالمی مسائل کے باوجود اسلامی نظام کا قیام اور اسے مستحکم کرنا، ایک عظیم کارنامہ ہے جس کے ساتھ رہ کر ایران کے صبار اور شکور (صبر و تحمل والے، شکر گزار) ایرانی عوام 42 سالوں کے دوران، آزمودہ کار اور کہنہ مشق ہوچکے ہیں اور ان تمام آزمائشوں سے سربلند ہوکر، عہدہ برآ ہو چکے ہیں۔

ایرانی ملت اسلامی انقلاب کے بعد، اور چار عشروں کے دوران، عظمت کے لئے ان ضروری چار عوامل سے بخوبی بہرہ ور رہی۔

اسلامی انقلاب کے مقاصد انقلابی نعروں میں نمایاں ہیں اور جیسا کہ رہبرِ حکیم نے انقلاب کے دوسرے مرحلے کے بیانیے (The Second Phase of the Revolution Statement) میں فرمایا ہے: "کسی بھی چیز کے لئے ایک "کارآمد رہنے کی میعاد" (Shelf life)" تاریخ انقضا (Expiry date) کا تعین کیا جاسکتا ہے، لیکن اس دینی انقلاب کے عالمی نعرے اس اصول کی مُستَثنیٰ ہیں؛ یہ نعرے کبھی بھی پارینگی سے دوچار نہیں ہونگے اور یہ نعرے کبھی بھی بےفائدہ نہيں ہونگے؛ کیونکہ بنی نوع انسان کی فطرت تمام اعصار و قرون میں ان نعروں کے ساتھ گوندھی گئی ہے۔ آزادی، اخلاقیات، معنویت و روحانیت، عدالت و انصاف، استقلال و خودمختاری، عزت و عظمت، عقلیت، اخوت، میں سے کسی کا بھی کسی ایک خاص معاشرے اور خاص نسل سے تعلق نہیں ہے، کہ ایک خاص دور میں خوب چمکے اور دوسرے دور میں زوال پذیر ہوجائے"۔

کئی عشرے گذرنے کے بعد، اسلامی انقلاب کے اعلی مقاصد کو نہ صرف نہیں بھلایا گیا ہے بلکہ ایک لحاظ سے اس کو ارتقاء بھی ملی ہے۔ اگر کسی دن یہ اعلی مقاصد ایرانی قوم تک محدود تھے، آج عالمی سطح پر جدید اسلامی تہذیب (Modern Islamic civilization) کی بات ہورہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعلی مقاصد آج ایران کی سرحدوں سے گذر کر پورے عالم اسلام کی نوجوان نسلوں کے مشن میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

اس انقلاب کو اپنی کامیابی کے ابتدائی ایام سے ہی بڑے اور بےشمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے اور سنگلاخ وادیوں اور دشوارگذار راستوں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔

دشمن کی مختلف فتنہ انگیزیوں، مسلط کردہ جنگ، پابندیوں، دہشت گردیوں، دائمی نرم جنگ، اندرونی و علاقائی اور عالمی مسائل کے باوجود اسلامی نظام کا قیام و استحکام، ایک عظیم کارنامہ ہے جس کے ساتھ رہ کر ایران کے صبار اور شکور (صبر و تحمل والے، شکر گزار) ایرانی عوام 42 سالوں کے دوران، آزمودہ کار اور کہنہ مشق ہوچکے ہیں اور ان تمام آزمائشوں سے سربلند ہوکر، عہدہ برآ ہوچکے ہیں۔

اسلامی انقلاب کو بہت بڑے دشمنوں کا بھی سامنا رہا۔ مراد وہ وطن فروش، غدار اور دہشت گرد نہیں ہیں جو مغربی ممالک میں بھاگ کر دشمن کی زبان بنے ہوئے ہیں، کیونکہ وہ اتفاق سے بہت حقیر اور ناچیز ہیں بلکہ مراد وہ استکباری ممالک اور وہ بدمعاش قوتیں ہیں جو دنیا پر پنجے گاڑھی ہوئی ہیں۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز پر، دنیا کے دو بڑے بلاک - مشرقی بلاک اور مغربی بلاک - اسلامی ایران کے مد مقابل آکھڑے ہوئے تھے؛ اور سوویت اتحاد کے زوال کے بعد انقلاب اسلامی کے ساتھ دشمنی مغرب میں مرکوز ہوگئیں، جہاں عسکری، سیاسی اور معاشی طاقت یکجا ہوچکی تھی؛ البتہ ان کے کٹھ پتلی عرب اور غیر عرب حکمران بھی ان سے جا ملے تھے۔

البتہ مغرب کے اندرونی گماشتے اور ایران میں مغرب سے منسلک عناصر دوسرے ممالک کے غداروں کی طرح، دشمن کے پانچویں کالم (Fifth Column) کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، انقلاب کے اعلی مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہیں؛ گوکہ ان میں سے کئی لوگ حساس مناصب پر بھی قابض رہے ہیں۔

اگر ہماری نگاہ عمیق اور ہمہ جہت ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ اتنی ساری اور رنگ برنگی عظیم رکاوٹیں، مشکلات - جن میں سے ہر ایک، ایک قوم اور ایک نظام حکومت کے گرانے کے لئے کافی تھی - سے اسلامی کا عبور، ایک معجزے سے کم نہیں ہے؛ بالکل موسی (علیہ السلام) کے معجزے کی طرح جن کے عصا نے فرعون کے جادوگروں کی بنائی ہوئی مختلف النوع اشیاء کو نگل لیا؛ اور انھوں لاکھوں بنی اسرائیلیوں کو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے گذار دیا۔

لیکن یہ تینوں عوامل - یعنی اعلی مقاصد اور عظیم اہداف، عظیم مسائل و مشکلات سے عبور کرنا اور انہیں پیچھے چھوڑنا اور ان سے عہدہ برآ ہونا؛ - عظیم اور بہادر دشمنوں سے نمٹنا، ایک عظیم رہبر و قائد کے بغیر، قابل حصول نہیں ہے۔ ایک بڑا قائد و پیشوا خود ہی نہایت اونچے افقِ نگاہ اور اعلی مقاصد کا مالک ہوتا ہے اور اپنی امت کی افقِ نگاہ کو بلند کردیتا ہے اور ان کے سامنے اعلی مقاصد رکھ دیتا ہے۔

عظیم الشان قائد ہی ہے جو بڑی بڑی مشکلات کے سامنے پہاڑ کی مانند جم جاتا ہے اور دشمن کے مقابلے میں استقامت کے لئے اپنی قوم کو حوصلہ دیتا ہے؛ اور عظیم قائد ہی ہے جس کے سامنے بڑے دشمن صف آرا ہوجاتے ہیں اور وہ ان دشمنوں کو شکست دیتا ہے۔

ایران کا اسلامی انقلاب - کامیابی سے پہلے بھی اور کامیابی کے بعد - عظیم قیادت و زعامت کی نعمت سے بہرہ ور رہا۔ انقلاب اسلامی کے پیشوا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) ایک بے مثل اور باعظمت شخصیت کے مالک تھے جنہوں نے جبر و ستم پر استوار شہنشاہی نظام کو سرنگوں کردیا اور انقلاب اسلامی کے نہایت سخت ابتدائی عشرے کو اسلامی نظآم کو مستقر اور مستحکم کرکے پیچھے چھوڑ دیا اور اپنی قوم کو "توانستن" (کرسکنے) کا ہنر سکھایا۔

اس امام عظیم الشان نے اپنی خاص خدائی نگاہ سے، انقلاب اسلامی کے نشیب و فراز سے بھرپور راستے کو دائمی ابدی بنانے کی خاطر، اپنے تمام تر ساتھیوں کے درمیان ایک ہی فرد کو صاحبِ استعداد و صلاحیت سمجھا اور اور اپنی انگشت شہادت کو "سید الخامنہ ای" کی طرف اٹھایا۔

ماہرین کونسل (مجلس خبرگان = Council of Experts) نے بھی از خود اس صحیح اشارے کو صحیح ہی تشخیص دیا اور خمینی کبیر کے لئے ایک خَلَفِ صالح کا انتخاب کیا؛ ایک ایسے رہبر کا انتخاب کیا جس کو ان کے دشمن "سب سے بڑا حریف" کا لقب دیتے ہیں۔ان شاء اللہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: مہدی مسائلی؛ اسلامی انقلابی کی بیالیسویں سالگرہ کی آمد پر ایک یادداشت، جو فارس نیوز کی ویبگاہ پر شائع ہوئی۔

ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

ای میل کریں