ایران اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں بائیڈن کی پالیسی واضح کیوں ہو رہی؟
ہر عاقل انسان یہی کہہ رہا ہے کہ امریکا کو ایٹمی معاہدے کے مطابق عمل کرنا چاہیے لیکن امریکہ کی اندرونی صورت حال سے ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی تک اس کے متعلق امریکہ کا کوئی واضح موقف نہیں ہے اور ابھی بھی یہ کہ امریکا ایٹمی معاہدے پر واپس آئے گا یا نہیں اس بارے میں بہت زیادہ ہاں اور نہیں ہے اس کے باوجود کے امریکہ کے نئے صدر نے اپنی انتخاباتی مہم میں ایٹمی معاہدے پر عمل کرنے کی بات کی تھی لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی ہے یاد رہے کہ امریکا نے خود ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو ہر عاقل شخص یہی کہتا ہے کے پہلے امریکا کو معاہدے پر عمل کرنا چاہیے لیکن امریکہ مدعی ہے کہ ایران معاہدے کی پاسداری کرے پھر ہم عمل کریں گے اس طرح کے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
جماران خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہر عاقل انسان یہی کہہ رہا ہے کہ امریکا کو ایٹمی معاہدے کے مطابق عمل کرنا چاہیے لیکن امریکہ کی اندرونی صورت حال سے ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی تک اس کے متعلق امریکہ کا کوئی واضح موقف نہیں ہے اور ابھی بھی یہ کہ امریکا ایٹمی معاہدے پر واپس آئے گا یا نہیں اس بارے میں بہت زیادہ ہاں اور نہیں ہے اس کے باوجود کے امریکہ کے نئے صدر نے اپنی انتخاباتی مہم میں ایٹمی معاہدے پر عمل کرنے کی بات کی تھی لیکن صدر بننے کے بعد انہوں نے ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح بات نہیں کی ہے یاد رہے کہ امریکا نے خود ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو ہر عاقل شخص یہی کہتا ہے کے پہلے امریکا کو معاہدے پر عمل کرنا چاہیے لیکن امریکہ مدعی ہے کہ ایران معاہدے کی پاسداری کرے پھر ہم عمل کریں گے اس طرح کے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکہ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ابھی تک امریکہ نے اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے اسی لئے وائٹ ہاوس کو کئی بار بائیڈن کے بیانات کی وضاحت کرنی پڑی ہے انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔
محمد جواد ظریف نے کہا کہ امریکہ ابھی تک اپنی پالیسیوں کے بارے میں سوچ رہا ہے انہوں نے کہا اس سے قبل بائیڈن نے تسلیم کیا تھا کہ ٹرمپ کی پالیسیاں غلط تھیں اور وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی لائیں گے یاد رہے کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکی کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی کرنے یا نہ کرنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔