اگر رہبر معظم انقلاب کی واپسی میں رکاوٹ کھڑی کی تو حکومت کا تختہ الٹ دیں گے
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق تہران میں ۷ بہمن ۱۳۵۷ھ،ش کو بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران بختیار حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی، احتجاج میں بڑے بڑے پلے کارڈز بھی لوگوں نے اٹھائے ہوئے تھے کچھ نعروں اور پلے کارڈز کا مضمون یوں تھا: اگر خمینی رحمہ اللہ کی واپسی میں رکاوٹ کھڑی کی تو بختیار حکومت کا تختہ الٹ دیں گے امام خمینی رحمہ اللہ کا منصوبہ وقت کے یزید کو معزول کرنا ہے، بختیار کی کابینہ ایک نئی چال ہے۔
۷ بہمن ۱۳۵۷ ھ،ش کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اہل تشیع کے دوسرے اور آٹھویں امام کے ایام عزا کے موقع پر لاکھوں ایرانیوں نے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا، تہران میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ افراد نے امام خمینی رحمہ اللہ کی تصویریں ہاتھوں میں اٹھا کر پرامن مظاہرہ کیا۔
کیہان اخبار نے ۸ بہمن کے احتجاج کے بارے میں لکھا ہے کہ صبح سات بجے سے لوگ شہر کے مختلف حصوں میں جمع ہو گئے احتجاجی مظاہروں میں مرد و عورتیں شامل تھے، وہ شہباز نامی سڑک کے جنوبی حصہ میں اکھٹے ہوئے اور انہوں نے حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی رحمہ اللہ کی تصاویریں ہاتھوں میں لئے ہوئے سڑک کے شمالی حصہ کی جانب احتجاجی مظاہرہ کیا۔
ایک اور گروپ نے ری نامی سڑک سے مظاہرہ شروع کیا اسی دوران ان گروہوں کے احتجاج کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے گروہ بھی سڑک کے شمال اور جنوب سے آگئے اور وہ فردوسی چوک پر پہنچ گئے۔ تہران میں لوگوں کے مختلف طبقوں پر مشتل گروہوں کے علاوہ شہروں میں مختلف طبقوں کے افراد نے بھی تہران کی سڑکوں پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
تہران میں ۷ بہمن ۱۳۵۷ھ،ش کو بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران بختیار حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی، احتجاج میں بڑے بڑے پلے کارڈز بھی لوگوں نے اٹھائے ہوئے تھے کچھ نعروں اور پلے کارڈز کا مضمون یوں تھا: اگر خمینی رحمہ اللہ کی واپسی میں رکاوٹ کھڑی کی تو بختیار حکومت کا تختہ الٹ دیں گے امام خمینی رحمہ اللہ کا منصوبہ وقت کے یزید کو معزول کرنے کا ہے، بختیار کی کابینہ ایک نئی چال ہے۔
کیہان اخبار کے مطابق ۷ بہمن صبح آٹھ بجے جب احتجاج میں شریک لوگوں کا پہلا گروہ فردوسی چوک پر پہنچا تو متعدد لوگوں نے فردوسی کے مجسمے کے قریب پہنچ کر اس پر حضرت آیت اللہ العظمی امام خمینی رحمہ اللہ کی تصویریں لگا دیں۔
دوپہر ۱۲ بجے جب آزادی چوک پر لوگوں کا ہجوم تھا تو لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں علماء کے حکم پر سڑک پر بیٹھ گئے اور مؤذنین نے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذانین دیں اور نماز ادا کرنے کے بعد مظاہرے کی قرارداد گروہوں کے علماء نے پڑھ کر سنائی اور لوگ دوپہر ۲ بجے واپس لوٹنا شروع ہوگئے۔ اسی دن ملک کے مختلف حصوں سے تقریباً ۴۰ علماء نے ایئرپورٹ کی بندش اور تہران یونیورسٹی میں امام خمینی رحمہ اللہ کی واپسی میں رکاوٹ پر احتجاج کیا اور یہ تعداد کچھ ہی دنوں میں ۴۰۰ افراد تک پہنچ گئی۔ تہران یونیورسٹی میں علماء کا احتجاج اور اس کی وسیع پیمانے پر حمایت چار دن تک جاری رہی جس کے نتیجے میں بختیار حکومت ہوائی اڈوں کی بندش کو ختم کرنے پر مجبور ہوگئی۔