حضرت فاطمہ اگر مرد ہوتیں تو یقیناً منزل نبوت پر فائز ہوتیں
ہر انسان فطری طور پر کمال حاصل کرنا چاہتا ہے اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں ہر مادی انسان کے لئے ضروری ہے کہ کوئی الہی نمائندہ اسے کمال کی طرف لے جائے انسان کو خداوندمتعال نے عقل سلیم کے علاوہ ارادہ اور اختیار جیسی نعمتوں سے نوازا ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ اپنے نمونہ عمل یعنی اپنے الہی نمائندے اور ہادی کو پہچانے اور اس کے بعد اس کی معرفت حاصل کرے، اس کی پیروی کرے اور جب انسان ایک کامل نمائندے اور ہادی کی پیروی کرے گا تو وہ خود بخود کمال کی منزلیں طے کرنا شروع ہو جائے گا۔ خداوندمتعال نے جن ہستیوں کو بنی نوع انسان کے لئے نمونہ عمل بنا کر بھیجا ہے ان میں سے ایک ہستی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں اگر انسان جناب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کو اچھے انداز میں سمجھ لے تو وہ اس پر عمل پیرا ہو کر مادی اور معنوی دونوں کمالات کو حاصل کر سکتا ہے، اسی طرح ہم اگر اپنے معاشرے کو انسانیت کی بلندیوں اور ملکوت کے اعلی درجات پر دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ چیز ناممکن نہیں ہے بس اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عملی سیرت اور ان کے حقیقی فضائل سے آگہی حاصل کریں اور اس کے بعد اپنی موجودہ نسل اور آئندہ نسلوں کو ان کی سیرت اور ان کے کردار سے متعارف کروائیں۔ خداوندمتعال نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو عظیم الشان مرتبہ عطا کیا ہے اور اس عظیم المرتبت ذات سے ہمارے تعلق اور محبت نے ہمارے دوش پر بہت سنگین ذمہ داری عائد کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اس عظیم ہستی و عظیم ذات کی سیرت اور نقش قدم پر چلیں خواہ وہ ان کا ذاتی اور انفرادی کردار ہو یا ان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی ہو۔ یہ عظیم المرتبت خاتون اتنے عظیم مقام و منزلت کے باوجود گھر کا کام بھی خود انجام دیتی تھیں اور شوہر کی خدمت، بچوں کی تربیت اور ان کی دیکھ بھال بھی ان ہی کے ذمہ تھی۔ یہاں تک کہ عالم ملکوت کے رہنے والوں کی آنکھیں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے نور سے خیرہ ہو جاتی تھیں لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا درخشاں ستارہ تھا کہ جس سے عالم ملکوت کے رہنے والے بھی مستفید ہوتے تھے۔
اگر ہم ایک کامل انسان کو ایک خاتون کے پیکر میں متعارف کرانا چاہیں تو اس کا واحد مصداق حضرت صدیقہ کبریٰ فاطمہ الزہرا سلام للہ علیہا کی ذات ہے حضرت امام خمینی رحمہ اللہ حضرت زہرا سلام اللہ کی ولادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ بہت عظیم دن ہے اس دن ایک ایسی بیٹی نے دنیا میں قدم رکھا ہے جو انسان کامل کا ایک نمونہ ہے ایک ایسی خاتون دنیا میں آئی ہے جس میں انسانیت کے تمام پہلو جلوہ نما ہیں۔ وہ ایک معمولی خاتون نہیں ہیں بلکہ ایک روحانی خاتون، ایک ملکوتی خاتون ہیں، ایک ایسی خاتون جو تمام معنوں میں خاتون ہیں، انسانیت کا مکمل نسخہ، عورت کی تمام حقیقت ان کے وجود میں جلوہ گر ہے لہذا وہ ایک معمولی عورت نہیں ہیں وہ ایک ملکوتی موجود ہیں جو اس دنیا میں ایک انسان کی صورت میں ظاہر ہوئی ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ ایک خدائی اور جبروتی موجود ہیں جو ایک عورت کی صورت میں ظاہر ہوئی ہیں، انسانی کمال کے تمام پہلو اور ایک خاتون کے کمال کے تمام پہلو جنہیں تصور کیا جا سکتا ہے وہ اس ہستی میں موجود ہیں۔ یہ ایسی خاتون ہیں جن کے وجود میں تمام انبیاء کی خصوصیات موجود ہیں۔ ایک ایسی خاتون جو اگر ایک مرد ہوتیں تو یقیناً منزل نبوت پر فائز ہوتیں، ایک ایسی خاتون جو تمام معنوں میں ایک مکمل انسان ہیں ایک ایسی خاتون جو تمام معنوں میں خاتون ہیں۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ کی شخصیت کے بارے میں کچھ بیان کرنا کسی غیر معصوم کے بس کی بات نہیں ہے اس سلسلہ میں امام راحلؒ فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ایک ایسی خاتون ہیں جو خاندان وحی کے لئے باعث فخر ہیں اور وہ دین اسلام کا ایک چمکتا سورج ہیں ایک ایسی خاتون جن کے فضائل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خاندان عصمت و طہارت کے فضائل کی طرح لامحدود ہیں ایک ایسی خاتون جن کے بارے میں جن نے بھی جو کچھ بیان کیا جس نے بھی جو کچھ لکھا ہے اس نے اپنی توان کے مطابق ان کے بارے میں لکھا یا بیان کیا ہے جبکہ حقیقت اس سے کہیں بالا ہے کیونکہ سمندر کو کوزہ میں بند نہیں کیا جا سکتا لہذا جس نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس نے اپنی سمجھ کے مطابق بیان کیا ہے ان کا مرتبہ تو بہت دور کی بات ہے۔ بنابر ایں اس حیرت انگیز وادی سے ہم اپنی توان کے مطابق کچھ لے سکتے ہیں۔
حضرت زہرا سلام اللہ کی فضائل کے بارے میں ہر شخص نے اپنی توان اور سمجھ کے مطابق گفتگو کی ہے بعض کے نزدیک ان کی سب سے عظیم فضیلت یہ ہے وہ ایک معصوم ہستی تھیں بعض کا کہنا ہے کہ ان کی سب سے بڑی فضیلت ان کے علم و حکمت میں پوشیدہ ہے کچھ اور کا ماننا ہے کہ پنجتن میں ان کا شمار ہونا ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے لیکن امام راحلؒ کے نزدیک حضرت رسول خداؐ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جبرائیل امین کا مسلسل نازل ہونا ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے اوپر جبرائیل امین کا نزول کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہیں ایسا خیال نہ ہو کہ جبرائیل امین ہر انسان کے اوپر نازل ہو سکتے ہیں اور ان کے نزول کا امکان پایا جاتا ہے بلکہ اس کے لئے تناسب ضروری ہے یعنی اس شخص کی روح اور مقامِ جبرائیل کے درمیان مناسبت لازمی ہے کیونکہ خود جبرائیل روح اعظم کے مالک ہیں اور یہ تناسب صرف جبرائیل امین اور پہلے درجہ کے انبیاء جیسے حضرت رسول خداؐ، موسیؑ، عیسیؑ، ابراہیمؑ اور ان کی مانند دوسرے انبیاء کے درمیان پایا جاتا تھا۔ امام راحلؒ فرماتے ہیں: حتی میں نے ائمہ اطہارؑ کے بارے میں بھی کہیں نہیں پڑھا کہ اس طرح جبرائیل ان کے اوپر نازل ہوئے ہوں لہذا میرے نزدیک یہ فضیلت ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔ امام خمینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری خواتین انہیں اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں اور ہمارے مرد بھی ائمہ اطہارؑ کو نمونہ عمل قرار دیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کو مظلوموں کے دفاع اور سنت الہی کو زندہ کرنے کے لئے وقف کیا تھا۔