امام خمینی (رہ) اور انسانی وقار و عظمت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس
امام خمینی کی شخصیت کا سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو قاری پر انسانی زندگی کے کئی زاویئے وا ہوتے ہیں۔ امام خمینی ایک مجتھد، سیاسی راہنماء اور ایک عظیم الشان اسلامی انقلاب کے عنوان سے عامۃ الناس میں جانے پہچانے ہیں۔ آپ کی زندگی کے کئی پہلو ابھی تک عام قاری کے سے پوشیدہ ہیں۔ آپ ایک عالم دین اور عالمی مرجع تشیع کے عنوان سے بلاشک و شبہ جانے پہچانے ہیں، لیکن ایک معاشرہ شناس فرد کے عنوان سے بھی آپ کی نگاہ بہت عمیق و گہری ہے۔ آپ ایک پروقار شخصیت کے حامل تھے۔ آپ کے نظریات سے محسوش ہوتا ہے کہ آپ ایک انسان کو بحیثیت انسان اس کائنات کی کتنی قمیتی اور اہم مخلوق تصور کرتے ہیں اور اس قرآنی تصور حیات کو بڑی سادگی اور عام فہم انداز میں سمجھانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امام خمینی کی شخصیت کے اس پہلو پر کم نکات سامنے آئے ہیں۔
آپ ایک بے خوف، شجاع اور طاغوتی طاقتوں سے ٹکرا جانے والے انسان کے ساتھ ساتھ ایک پروقار شخصیت بھی تھے۔ امام خمینی نے اپنی تمام تحریک میں پورے عزت و وقار کے ساتھ دشمن کا سامنا کیا۔ انسان کے باوقار ہونے کی ایک بڑی وجہ اس کا اندر کا اطمینان ہوتا ہے، جو افراد اجتماعی زندگی میں عدم توازن کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ باوقار نہیں رہتے۔ دوسری طرف بعض لوگ تکبر، بڑھائی اور گھمنڈ کو وقار کی علامت سمجھتے ہیں، حالانکہ تکبر اور وقار بعض اوقات ایک دوسرے کی مخالف اور متضاد صفات شمار ہوتی ہیں۔ امام خمینی کی زندگی کا اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو آپ بچپن سے پروقار اور متین و سنجیدہ فرد سمجھے جاتے تھے۔ امام خمینی کے بڑے بھائی آیت اللہ پسندیدہ نقل کرتے ہیں کہ آپ بچپن میں بھی اتنے پروقار اور بارعب تھے کہ گلی محلے کے بچے آپ کے سامنے فضول گفتگو یا بدمعاشی کرنے سے ڈرتے تھے۔
آیت اللہ پسندیدہ کے بقول امام خمینی کے ساتھ رہنے والا ایک نوجوان اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ بچپن میں خمینی کے محلے سبز کاران میں کسی نوجوان کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی کہ اس محلے یا گلی میں ایسی بے ہودہ حرکتیں کرے، جو روح اللہ کو ناگوار لگتی تھیں۔ بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم جب بھی امام خمینی سے ملاقات کے لیے ان کے سامنے جاتے تو ان کا باوقار سنجیدہ اور رعب و دبدبے ولا چہرہ ہمارے اوپر ایک خاص اثر مرتب کر دیتا تھا۔ آپ کے پرانے جاننے والے حسینی شہرزاد آپ کے آبائی شہر خمین کا ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم کم عمر تھے اور جب بھی امام خمینی کے پاس جاتے تو ہم میں جرات نہ ہوتی کہ امام خمینی کے چہرے کی طرف براہ راست یا ان کی آںکھوں مِں آنکھیں ڈال کر بات کریں۔ آیت اللہ صادق خلخالی ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام خمینی سیاسی تحریک کے آغاز سے پہلے دو بار آیت اللہ بروجردی کے نمائندے کی حیثیت سے شاہ ایران سے ملے تھے، اس ملاقات میں شاہ ایران آپ سے بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔
آیت اللہ خلخالی کے مطابق فدائیان اسلام کے افراد کی رہائی کے لیے آیت اللہ بروجردی نے امام خمینی کو اپنے نمائندے کے طور پر شاہ ایران سے مذاکرات کے لیے بھیجا تھا۔ امام خمینی اس ملاقات کے حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اپنی تعریف نہیں کرنا چاہتا، لیکن حقیقیت یہ ہے کہ اس ملاقات میں شاہ ایران میری گفتگو اور ذات سے اتنا متاثر اور مغلوب ہوگیا تھا کہ اس میں صحیح بات کرنے کی طاقت و سکت نہیں رہی تھی۔ امام خمینی کی شخصیت کا ایسا معنوی و روحانی رعب و دبدبہ تھا کہ ملنے والا آپ کی شخصیت کے حصار میں آجاتا تھا اور خواستہ نخواستہ آپ کے احترام پر مجبور ہو جاتا، ہر ملاقاتی آپ کی شخصیت میں مجذوب ہو جاتا۔ فرانس کا ایک صحافی اپنے تاثرات میں لکھتا ہے کہ امام خمینی کی شخصیت میں عجیب انداز کی کشش اور جاذبیت تھی، میں ایک دفعہ ان کی تقریر کے دوران حسینیہ جماران میں موجود تھا، میں ان کی شخصیت، آواز، الفاظ اور پرسکون لب و لہجے سے اس قدر متاثر ہوا کہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ عمر کے اس حصے میں ایسی تقریر اور اطمینان میرے لیے ناقابل یقین تھا۔
ایک اور فرانسیسی صحافی اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں ایک دفعہ ان کے قریب گیا، وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل کر جا رہے تھے۔ میں ان کے قریب گیا، انہوں نے چند لمحوں کے لیے میری طرف دیکھا، ان کی یہ نگاہ میرے اوپر عجیب اثر پیدا کرنے میں کامیاب رہی۔ میرے اوپر اس چند لمحوں کی نگاہ سے نہ خوف طاری ہوا نہ تعجب و حیرت، لیکن ایک ایسی قلبی و ذہنی کیفیت پیدا ہوئی کہ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے اس ایک نگاہ نے ہلا کر رکھ دیا۔ میں یہاں پر اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ میں نہ آیت اللہ خمینی کا حامی ہوں نہ مخالف، میں ایک عام صحافی اور رپورٹر ہوں، لیکن اس میدان میں نیا بھی نہیں ہوں۔ پہلی بار نہیں تھی کہ میں کسی بڑی سیاسی شخصیت کے قریب آیا تھا۔ میں اس طرح کے کئی تجربات سے گزر چکا ہوں، لیکن آیت اللہ خمینی کا وقار اور رعب بندے کے لیے یادگار رہے گا۔
امام خمینی کے پروقار اور باصلاحیت ہونے کی ایک وجہ ان کی کم گوئی اور اضافی گفتگو سے پرہیز تھا۔ حجۃ اسلام دوانی آپ کی گفتگو کے مختصر اور کم گوئی کے بارے میں کہتے ہیں کہ امام بہت آرام، آہستہ اور انتہائی پروقار انداز سے گفتگو کرتے تھے۔ اگر کسی محفل میں جاتے تو جب تک کوئی ان سے گفتگو نہ کرتا، آپ مکمل خاموش رہتے، یہاں تک کہ جس جگہ بیٹھتے وہیں بغیر زیادہ حرکت کیے آرام سے بیٹھے رہتے۔ آیت اللہ سبحانی اس خصوصیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام خمینی کم گو تھے، لیکن جب بولتے تو انتہائی مختصر اور جامع گفتگو کرتے، عام طور پر خاموشی اختیار کرتے اور خاموش طبع انسان تھے۔
حجۃ الاسلام امام جمارانی نے اخبار جمہوری اسلامی میں ایک مضمون میں لکھا تھا کہ امام کی شخصیت ایک باوقار اور سنجیدہ شخصیت تھی، آپ کے چہرے پر ایک خاص رعب و دبدہ تھا جبکہ دوسری طرف آپ انتہائی منکسر المزاج بھی تھے۔ اکثر اوقات خاموش رہتے، کم گفتگو کرتے، کوشش کرتے ضرورت سے زیادہ گفتگو نہ کریں، ایسا محسوس ہوتا تھا جیسا آپ ناپ تول کر حرف ادا کرتے تھے۔ تقاریر اور خطابات کے علاوہ عمومی محفلوں میں کم شرکت کرتے اور زیادہ سوچ و فکر میں ڈوبے نظر آتے، وہ اپنے وقت سے بھرپور استفادہ کرتے اور محفل میں بیٹھ کر بھی سوچ و فکر میں مشغول رہتے۔ امام خمینی کی شخصیت اتنی باوقار اور باعظمت تھی کہ آپ کے مخالفین بھی متاثر ہوئے بغیر نہِیں رہتے تھے۔ آپ کا سخت سے سخت مخالف بھی پہلی ملاقات میں منقلب ہو جاتا اور امام خمینی کے بارے میں اس کی رائے میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی۔
مصر کے معروف تجزیہ نگار حامد الگار ایک ترک صحافی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے ترکی کے ایک سیکولر اخبار میں ایک مقالہ پڑھا، اس مقالہ کا مصنف دیگر ترک تجزیہ نگاروں کی طرح انقلاب سے پہلے امام خمینی کے خلاف بہت غلط باتیں لکھ چکا تھا، انقلاب کے بعد جب اس کی امام سے ملاقات ہوئی تو وہ خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ میں نے ملاقات سے پہلے کئی سوالات اور اعتراضات ذہن میں ترتیب دے رکھے تھے، لیکن میں جونہی آیت اللہ خمینی کے پاس پہنچا تو میں اپنے آپ کو شرمندہ اور بدحواس محسوس کرنے لگا، مجھے اپنے تمام سوالات و اعتراضات بے معنی اور فضول محسوس ہوئے اور میں اس بات کو ترجیح دی کہ سوال کرنے کی بجائے ان کی گفتگو کو غور سے سنوں۔ یہ صحافی کہتا ہے کہ امام خمینی کی موجودگی میں مجھے اس کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہا، سوائے اس کے کہ میں نے امام خمینی سے کہا کہ مجھے ذاتی طور پر نصحیت کریں اور امام خمینی نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کو پہچانو اور اسلامی تعلیمات و عبادات پر عمل کرو۔
امام خمینی کی پروقار اور بارعب شخصیت اس بات کا باعث بنتی کہ آپ کی ہر بات سننے والے پر گہرا اثر چھوڑتی۔ بہت سے ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کئی افراد جو آپ کی بات اور زبان کو نہیں سمجھ سکتے تھے، وہ صرف آپ کے لب و لہجہ اور شخصیت سے متاثر ہو جاتے تھے۔ امام خمینی کے ساتھ فرانس کے دیہات نوفل لوشاتو میں ملاقات کرنے والے ایک ایرانی عالم دین کا کہنا ہے کہ فرانس کے کچھ طالبعلم اکثر اوقات نوفل لوشاتو میں امام خمینی کی خدمت می آتے، حالانکہ وہ فارسی سے آشنا نہ تھے۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا تمھیں فارسی بھی نہیں آتی اور ہمیشہ امام خمینی کی گفتگو کا فرنچ ترجمہ بھی نہیں ہوتا، جب آپ کو کچھ سمجھ بھی نہیں آتی تو آپ کس لیے امام کی تقریر یا گفتگو سننے آجاتے ہو۔ ان فرانسیسی طلباء کا جواب تھا کہ ہمیں فارسی نہیں آتی اور امام خمینی کی گفتگو بھی سمجھ نہیں پاتے، لیکن ہم جب بھی ان کی گفتگو سنتے ہیں تو ہمارے قلب و روح کو ایک عجیب سا اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
امام خمینی کی شخصیت کے رعب و دبدبے اور پروقار ہونے کا ایک معروف واقعہ ہے کہ جب اس زمانے کی سپرپاور سویت یونین کے وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورڈ نائزے امام خمینی کے پاس گوربا چوف کے نام خط کا جواب لے کر آئے تو حجۃ السلام رحیمیان کے بقول امام خمینی کے سامنے اس خط کا جواب پڑھتے ہوئے سوویت یونین کے وزیر خارجہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ آپ کے سامنے جب تک رہا، ایک بے حس اور مجسمے کی طرح بیٹھا رہا۔ امام خمینی کی پروقار اور بارعب لیکن انتہائی پرکشش شخصیت کے بارے میں ایران کے اندر اور ایران سے باہر دوست و دشمن سب اعتراف کرتے ہیں اور آپ کی اس باوقار اور پرکشش شخصیت کے پیچھے وہ ایمان اور تقویٰ تھا جس سے آپ مالامال تھے۔