پاکستان دباو کے باوجود بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا:عمران خان
مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد فلسطین کے حوالے سے جناح کے نقش قدم پر چلتا رہے گا۔
اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو امریکا کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا ہے، بالخصوص متعدد عرب ممالک کے تل ابیب کے ساتھ امن معاہدوں کے تناظر میں، لیکن ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ایسا تصفیہ نہ ہو، جو فلسطین کو مطمئن کرسکے۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کا یہ بیان مشرق وسطیٰ کے معاملات پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ مڈل ایسٹ آئی (ایم ای ای) کی ایک رپورٹ میں شائع ہوا۔ ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان نے یہ بیان گذشتہ ہفتے مقامی میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دیا تھا۔ ویب سائٹ کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ غیر معمولی تھا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا کسی اور مسلمان ملک کو بھی پاکستان جیسے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ایسی چیزیں ہم نہیں کہہ سکتے، ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد فلسطین کے حوالے سے جناح کے نقش قدم پر چلتا رہے گا، یعنی جب تک عرب حصے کے لیے انصاف نہ ہو، پاکستان یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے والا ملک متحدہ عرب امارات تھا۔
ادہر قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے کہا ہے کہ میرے خیال میں بہتر یہ ہے کہ ہمیں ایک متحدہ (عربی) محاذ بنا کر فلسطینی مفادات کی حفاظت اور (فلسطین پر) ناجائز قبضے کے خاتمے کو پہلی ترجیح قرار دے دینا چاہئے۔ قطری وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ اختلافات؛ تمام عرب ممالک کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات شروع اور دوطرفہ تناؤ کو ختم کرنے کے لئے اسرائیل کو مجبور کرنے پر مبنی تمام عرب ممالک کی مشترکہ کوششوں کے لئے نقصاندہ ہیں۔
محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری سے متعلق بعض عرب ممالک کے اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پسند کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں کیونکہ کسی بھی فیصلے کے اٹھائے جانے کا دارومدار خود انہی پر ہے۔ واضح رہے کہ غاصب صیہونی رژیم کے تسلیم کئے جانے کو فلسطینی اراضی سے ناجائز اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے ساتھ مشروط رکھنے پر مبنی کئی دہائیوں پر مشتمل عرب ممالک کی سیاست کو ٹھکراتے ہوئے متحدہ عرب امارات اور بحرین سمیت چند ایک عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کر لئے تھے جبکہ قبل ازیں مسلم ممالک میں مصر اور اردن ہی 2 ایسے ممالک تھے جنہوں نے غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کر رکھے تھے۔