شخصیت رسول اکرمؐ امام خمینی (رہ) کے بیانات کی روشنی میں
اٹھائیس صفر المظفر رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم رحلت اور آپ کے پیارے نواسے حضرت اما حسن علیہ السلام کا یوم شہادت ہے جس دن ہزاروں سوگوار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شہادت امام حسن علیہ السلام کی یاد میں عزاداری کرتے ہیں۔ تاریخ نے لکھا ہے کہ سن 11 ہجری کے ابتدائی مہینوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیمار ہوئے اور وفات پا گئے، جب آپ کی بیماری شدت اختیار کرگئی تو منبر پر رونق افروز ہوئے اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی کی سفارش فرمانے کے بعد فرمایا: اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہے تو وہ مجھ سے وصول کرے یا بخش دے اور میں نے کسی کو آزردہ کیا ہے تو میں تلافی کے لئے تیار ہوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بعثت سے قبل چالیس سال تک عوام کے درمیان بسر کئے، آپ کی زندگی ہر قسم کی ناپسندیدہ خصوصیات و کیفیات سے خالی تھی۔ آپ لوگوں کے نزدیک صادق اور امین سمجھے جاتے تھے لہذا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابلاغ رسالت کا آغاز کیا تو مشرکین نے آیات کا انکار کر دیا لیکن کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کو نہیں جھٹلا سکے۔
بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: آپ سب لوگ جانتے ہیں اور وہ افراد جو تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق قریش سے تھا اور جب آپؐ نے انہیں دعوت کا پیغام دیا تو انہوں نے مخالفت شروع کر دی، کیونکہ وہ زمانہ ایسا تھا کہ آپؐ کے لئے اس ماحول میں مکہ میں اپنی رائے کا اظہار مشکل کام تھا لہذا آپؐ نے خدا سے راز و نیاز کے لئے غار حرا کا انتخاب کیا، مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد آپؐ نے جب مسجد تعمیر کی تو وہاں پر بھی آپؐ کے پیروکار غریب اور غرباء تھے امیروں نے تو مکہ میں بھی آپ کی مخالفت کی تھی۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان ہی افراد سے اٹھے اور انہوں نے قیام کیا، آپؐ کے اصحاب بھی ان ہی افراد میں سے تھے جبکہ امیر و امراء تو اکثر آپؐ کے مخالف تھے اور آپؐ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان ہی افراد کے لئے قیام کیا اور ان ہی افراد کو دین اسلام اور احکام اسلام کی تعلیم سے آراستہ کیا۔ آپؐ نے مستضعفین اور کمزور لوگوں میں سے قیام کیا اور ان ہی کمزور اور مستضعفین کی مدد اور حمایت سے اپنے زمانے کے مستکبروں اور ظالموں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریش سے تھا اور اہل قریش بہت ثروتمند اور امیر لوگ تھے اور رسول اکرم کے حامیوں اور پیروکاروں کا شمار غریب و غرباء میں سے ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود اپنے حالات زندگی کے بارے میں فرماتے ہیں: بھیڑ، بکریوں کو میں نے بھی پالا ہے میں نے بھی ان کی رکھوالی کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ کا شمار بھی غریب و غرباء میں ہوتا تھا۔ آپؐ اور آپؐ کے چچا سب کے سب غریب افراد تھے۔ لہذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان کہ جناب ابوطالبؑ کو اپنی اولاد پرورش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، ہم ان کی اولاد میں سے پرورش کے لئے انتخاب کریں تا کہ ان کے کندھوں کا بوجھ تھوڑا کم ہو جائے یہ سب اس لئے تھا کہ وہ غریب افراد تھے اور ان کے پاس مال و دولت نہیں تھی۔ اگر آپ خداوندمتعال کی حکمت پر غور و خوض کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس نے ہمیشہ ظالموں اور مستکبروں کے خلاف کمزور طبقے سے اپنے انبیاء کا انتخاب کیا ہے جس طبقہ کو ظالم اور مستکبر ضعیف اور کمزور طبقہ شمار کرتے تھے کیونکہ وہ ان کے ظاہر کو دیکھتے تھے ان کا خیال تھا کہ ہمارے مقابلے میں تم کچھ بھی نہیں ہو اور خداوندمتعال بھی کسی نبی کو اس کی ذاتی لیاقت اور صلاحیت کی بنا پر انتخاب کیا اور اسے ظالموں اور مستکبروں کے سامنے قرار دیا تا کہ وہ الہی پیغام کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرے۔
امام (رہ) فرماتے ہیں کہ جب ہم تاریخ اسلام، رسول اسلامؐ اور آپؐ کے بعد عصر حاضر میں ان تمام افراد کا مطالعہ کرتے ہیں جنہوں نے اسلام کی پیروی کی تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ رسول اکرمؐ نے ایک محروم طبقہ سے قیام کیا۔ آپؐ نے محروم طبقہ کو بہتر انداز میں الہی پیغام سے آگاہ کیا اور وہ طبقہ آخر تک فقیرانہ زندگی بسر کرتا رہا لیکن اس کے باوجود اس نے ایسے کارنامے انجام دئے جو تاریخ کے اوراق نے قید کئے ہیں۔
امام (رہ) فرماتے ہیں کہ جو شخص خداوندمتعال کی عظمت، جلالت اور ربوبیت کا اچھے انداز میں ادراک کرتا ہے اور وہ حق جلّ جلالہ کے مقام کو بہتر پہچانتا ہے تو وہ لوگوں میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرتا ہے لہذا رسول اکرمؐ تمام مقامات الہی اور کمالات الہی میں دیگر تمام انبیاء، اولیاء اوراوصیاء سے سب سے کامل تھے اسی وجہ سے آپؐ کو سب سے زیادہ مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
رسول اکرمؐ یہ چاہتے تھے کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا، قرآن کی صورت میں جو کچھ ان پر نازل ہوا اسے بیان کیا جائے لیکن کس شخص کے لئے بیان کریں؟ جو شخص کسی چیز کو پہنچانے کا ادارہ رکھتا ہو اور اس کا پورا ہم و غم یہ ہو کہ یہ چیز فلاں تک پہنچ جائے اور اگر نہ پہنچا سکے تو اسے کتنا افسوس ہو گا اس کی مثال ایسی ہی ہے جس طرح ایک باپ یہ چاہے کہ اس کا بیٹا سورج کو دیکھے لیکن وہ اندھا ہو تو باپ کے دل میں یہ حسرت رہ جائے گی۔
آپؐ جب کفار مکہ کا مشاہدہ کرتے کہ وہ مسلمان نہیں ہو رہے ہیں تو آپؐ پریشان ہو جاتے کہ وہ مسلمان کیوں نہیں ہو رہے ہیں تا کہ وہ آخرت کے عذاب سے محفوظ رہیں۔ آپؐ کو بہت افسوس ہوتا اور آپؐ پریشان ہو جاتے کہ لوگ تربیت یافتہ کیوں نہیں ہو رہے ہیں تو خداوندمتعال نے وحی کے ذریعہ آپؐ کو پیغام دیا کہ آپؐ خود کو اتنی مشقت میں نہ ڈالیں۔ امام (رہ) فرماتے ہیں کہ رسول اکرمؐ اتنی عظیم الشان شخصیت کے حامل ہونے کے باوجود لوگوں میں ایسے رہتے کہ لوگ آپؐ کو نہیں پہچان پاتے تھے لہذا ہمیں بھی آپؐ کی زندگی کا مطالعہ کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔