چہلم سید الشہداء کی اہمیت امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں
چہلمِ سید الشہداء کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کی اہمیت کا راز یہ ہے کہ اس روز امام حسینؑ کے قیام کی یاد ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئی، اس دن اس کی نشر و شاعت کی بنیاد ڈالی گئی اگر شہیدوں کے اصلی وارث طرح طرح کے درد ناک واقعات جیسے واقعہ عاشورہ کے دن امام حسینؑ کی شہادت کے بعد اس کے نتائج کی حفاظت کی خاطر کمر بستہ نہ ہوتے تو بعد کی نسلیں ہرگز شہادت کے درخشاں نتائج سے فائدہ نہ اٹھا سکتیں۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ خداوند متعال شہیدوں کو اسی دنیا میں زندہ رکھتا ہے لیکن دوسرے امور کی طرح خداوندمتعال نے اس امر کے لئے جو طبیعی وسائل متعین فرمائے ہیں وہ چیز ہمارے اختیار اور ارادے سے متعلق ہے، یہ ہم ہیں کہ درست اور بجا ارادے کے ذریعے شہیدوں کی یاد اور فلسفہ شہادت کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ دشمنوں نے ہمیشہ اپنے پروپگنڈوں اور اپنے نشریاتی نظام کے ذریعہ لوگوں کے اذہان کو منحرف کرنے کی کوشش کی لیکن زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر میں سید الشہدا کے چہلم پر لوگوں کا سیلاب، ان کی پورے سال کی تبلیغات اور پروپگنڈوں کو بہا لے جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ان کی محنتوں پر پانی پھر جاتا ہے۔ یزید کی ظالمانہ اور جابرانہ حکومت نے بھی اپنی تبلیغات کے ذریعے حسین ابن علیؑ کو مجرم ٹھہرانے اور لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ حسین ابن علیؑ وہ شخص ہیں جنہوں نے اسلامی حکومت اور عدل کے خلاف دنیا کی خاطر قیام کیا ہے کچھ لوگوں نے اس طرح کی جھوٹی تبلیغات پر اعتماد کر لیا لیکن صحرائے کربلا میں حسین ابن علیؑ کی شہادت کے بعد جناب سید السجادؑ اور جناب زینب (س) نے اپنے خطبات اور بیانات کے ذریعہ یزید اور اس کے رفقائے کار کے تمام پروپگنڈوں کو بے نقاب کر دیا اور حقیقت کے چاہنے والوں کے سامنے حق و حقیقت کو عیاں کر دیا۔
امام خمینی (رہ) چہلم سید الشہداء کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں: تمام دن خدا کے دن ہیں لیکن بعض دن مخصوص اہمیت کے حامل ہیں اور انہیں اپنی خصوصیت کی وجہ سے یوم اللہ کہا جاتا ہے لہذا چہلم سید الشہداء بھی ایام اللہ یعنی خدا کے مخصوص دنوں میں سے ہے، کیونکہ حسینی جذبہ نے مقناطیس کی طرح چہلم کے موقع پر دلوں کو اپنی طرف کھینچا اور محبت حسینی کا سب سے پہلا جلوہ چہلم کے دن نمودار ہوا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے سب سے پہلے زائرین نے امام معصوم کی قبر مطہر پر حاضری دے کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ امام خمینی (رہ) چہلم سید الشہداء کو امت مسلمہ کے اتحاد کا دن قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہمیں امریکا سے زیادہ شکوہ نہیں کرنا چاہئے لیکن ہمیں اسلامی ممالک اور اسلامی حکومتوں سے شکوہ ہے اور ہمیں فریاد بلند کرنی چاہئے، دیکھو اسلام نے اتحاد اور وحدت کے بارے میں بہت تاکید اور تبلیغ کی ہے اور اسلام نے اس پر عمل بھی کیا ہے یعنی اس میں ایسے ایام پائے جاتے ہیں کہ خود وہ ایام اتحاد کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں جیسے عاشورہ اور چہلم۔
بانی انقلاب نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اتحاد اور طاقت میں اضافہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم جنگ طلب ہیں کیونکہ اسلام جنگوں کے آغاز کا معتقد نہیں ہے۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: ہم جنگ کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن جب دیکھا کہ زمانے کے یزیدوں نے جنگ چھیڑ دی ہے تو اکثریت کے برخلاف جو جنگ کو ایک بری چیز سمجھتے ہیں، امام خمینی (رہ) نے مسلمانوں کو جنگ کے مثبت پہلوؤں سے آگاہ کیا اور اس میں رضائے الہی کو حاصل کرنے کی توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: جنگ کے مثبت پہلوؤں میں ایک یہ ہے کہ مسلمان اس پر توجہ کریں گے اور دوسرے یہ کہ لوگ جنگ سے تھکاوٹ محسوس نہ کریں۔ بلکہ رضائے الہی پر توجہ کریں۔
امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں چہلم سید الشہداء کا سیاسی پہلو بھی مدنظر ہے وہ چہلم کو ظلم و ستم اور امریکی اسلام کا مقابلہ کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں لہذا انہوں نے چہلم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے تلاش کی کہ دنیا کے مسلمان اور مستضعف متحد و منسجم ہو جائیں اور زمانے کی عالمی طاقتوں سے خوفزدہ نہ ہوں اور چہلم کے مقاصد کو دنیا کے سامنے بیان کریں۔
امام خمینی (رہ) کے چاہنے والے ایک عالم دین حجت الاسلام حسن ۱۳۴۶ھ،ش میں امام حسین (ع) کے چہلم پر امام خمینی(رہ) کے تشریف لے جانے کے بارے میں کہتے ہیں جس سے امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں امام حسین (ع) کے چہلم کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ امام خمینی (رہ) کربلا میں حضرت عباس علیہ السلام کے روضے کے قریب سکونت پذیر تھے اور امام خمینی (رہ) جب بھی کربلا تشریف لے جاتے تو اسی مکان میں سکونت اختیار کرتے تھے۔ چہلم کی شب ہم کربلا میں تھے اور کربلا میں بہت زیادہ بھیڑ تھی جس میں رفت و آمد بہت مشکل تھی نماز مغربین کے بعد ہم نے سوچا کہ امام خمینی(رہ) کے لئے آیت اللہ بروجردی نامی امام بارگاہ سے مذکورہ مکان تک جانا بہت مشکل تھا لہذا ہم میں سے کچھ افراد نے یہ طے کیا کہ ہم امام (رہ) کو اطلاع دئے بغیر ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے تا کہ بھیڑ میں امام (رہ) کو اگر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو ہم ان کی حفاظت کریں، ابھی ہم تیس، چالیس قدم نہیں چلے تھے کہ گویا امام (رہ) نے محسوس کیا کہ کچھ لوگ میرے پیچھے آ رہے ہیں، امام (رہ) رک گئے اور ہم سے فرمایا: کیا آپ لوگوں کو مجھ سے کوئی کام ہے؟ ہم نے جواب دیا: نہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ آپ کے گھر چلنا چاہتے ہیں تو امام (رہ) نے فرمایا: ابھی نہیں بعد میں تشریف لائیے گا اس کے بعد وہ چل پڑے۔ کیونکہ وہ اس وقت گھر نہیں جا رہے تھے بلکہ حرمِ امام حسینؑ کی زیارت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے۔ چہلم کے دن بھی ہم نے پھر امام (رہ) کو دیکھا کہ وہ اس بھیڑ میں امام حسینؑ کے حرم کی جانب زیارت کے لئے جا رہے ہیں، ہم نے آہستہ آہستہ امام (رہ) کے پیچھے چلنا شروع کر دیا، ہم نے دیکھا کہ وہ حرم میں داخل ہوئے اور انہوں نے زیارت پڑھنا شروع کر دی اور زیارت پڑھنے کے بعد گھر تشریف لے گئے۔ مذکورہ واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں چہلم کے روز امام حسینؑ کی زیارت کی کتنی اہمیت ہے۔