عزاداری، حسینی صفات پیدا کرنے کا نام
تحریر: سید حسین موسوی
بارگاہ امام حسین ؑایک درسگاہ ہے، درسگاہ میں استاد اور شاگرد دونوں بات کرتے ہیں، جب تک طلباء کے سوال نہ ہوں ،درسگاہ مکمل نہیں ہے۔ امام علیؑ کا فرمان سلونی سننے والوں کو سوال کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ہر طالب علم میں سوال کرنے کی جرأت ہونی چاہیئے۔ سوال علم کی چابی ہے۔ بات دلیل سے ہونی چاہیئے۔ اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اس سے دلیل مانگیں۔ امام محمد باقر ؑکا ارشاد ہے کہ اگر میں بات چیت کرتے ہوئے آپ کی رہنمائی اس طرف نہ کروں کہ میں نے یہ مسئلہ قرآن مجید سے کہاں سے بیان کیا ہے تو آپ سوال کریں، تاکہ میں آپ کو بتاؤں کہ قرآن مجید میں سے کہاں سے لیا ہے۔ آج کے دور میں ہر خطیب پر لازم ہے کہ مجلس میں سوال و جوابات کا اہتمام کرے۔ سوال کرنے سے پتہ چلے گا کہ کس نے کہاں سے بات کی ہے۔
عزاداری بنیادی طور پر حسینی صفات پیدا کرنے کا نام ہے۔ عزاداری ریاضت ہے۔ عزاداری اپنا رنگ گم کرکے حسینی رنگ میں رنگ جانے کا نام ہے۔ وسعت قلبی بنیادی حسینی صفت ہے۔ دنیا میں نفرتوں نے انسانی روح کو زخمی کیا ہے، اس لیے انسانوں کی زخمی روح محبت کی تلاش میں کربلا آتی ہے۔ آج کی یہ اقوام متحدہ میں فرعون صفت حکمران قابض ہیں۔ اقوام متحدہ میں سکیورٹی کونسل میں کچھ فرعونوں کو ویٹو کا حق حاصل ہے، جو کہ نفرتون کی کونسل ہے۔ کربلا کی سکیورٹی کونسل محبت کی کونسل ہوگی۔ حسینی صفات میں سے ایک صفت محبت ہے۔ محبت کیا ہے۔۔۔۔؟ مثال: انسان کی ملکیت بنانے سے محبت ہے۔ بیوی سے محبت ہے، علم سے محبت ہے، کھانے سے محبت ہے۔ واقعی کھانے سے محبت ہے۔؟ محبت کھانے سے ہوتی تو پیٹ بھر جانے پر ختم نہیں ہوتی۔ جب بھوک لگتی ہے تو کھانا کھانے میں مزہ آتا ہے۔ جب بھوک ختم ہو جاتی ہے تو کھانے کی محبت بھی ختم، بھوک ہے تو محبت ہے، ورنہ نہیں ہے۔
انسان کی اصل محبت اپنے وجود اور کمال سے ہے، باقی اس کے تقاضے ہوتے ہیں۔
انسان کو اپنے وجود سے محبت ہے اور جس سے وہ وجود میں آتا ہے، اس سے بھی محبت کرتا ہے۔ خود اس سے جو وجود میں آتے ہیں، ان سے بھی محبت کرتا ہے۔ اولاد کی والدین سے اور والدین کی اولاد سے محبت اسی سبب سے ہوتی ہے۔ پھر والدین کی محبت اولاد سے کا مقابلہ اولاد کی محبت والدین سے کریں تو نظر آئے گا کہ والدین کی محبت اولاد سے زیادہ ہوتی ہے، پھر اس میں سے بھی ماں کی اپنی اولاد سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان سے خدا کی محبت بہت زیادہ ہے۔ انسان خدا کی مخلوق ہے، اس لیے خدا کی اس سے زیادہ محبت ہے۔ علل الشرائع کی حدیث ہے کہ جب حضرت موسیٰ دریا پار کرکے چلے گئے اور فرعون بیچ دریا میں ڈوب رہا تھا تو اس نے حضرت موسیٰ کو پکارا اور کہا یا موسیٰ یا موسیٰ، لیکن حضرت موسیٰ نے جواب نہ دیا اور چلے گئے۔ بعد میں حضرت موسیٰ سے الله پاک نے کہا کہ: تم نے فرعون کی مدد نہیں کی، کیونکہ تم نے اس کو وجود نہیں دیا۔ اگر فرعون مجھے پکارتا تو میں اس کو بچا لیتا، کیونکہ الله کی فرعون کے وجود سے محبت ہے، لیکن اس کے عمل سے نہیں۔ کبھی سوچو تو خالق تم سے کیسی محبت کرتا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے، کسی جنگ کا میدان ہے۔ کچھ جنگی قیدی اسیر کرکے لائے گئے، جن میں مرد اور خواتین شامل تھیں۔ رسول اکرم ؐاور اصحاب نے دیکھا کہ ان اسیروں میں ایک عورت کچھ ڈھونڈھ رہی تھی۔ بلآخر اس کو ایک بچہ مل گیا، جس سے پتہ چلا کہ وہ اپنے بچے کو ڈھونڈہ رہی تھی۔ اس گرمی کے عالم میں میدان جنگ میں وہ وہیں بیٹھ گئی اور اپنے بچے کو دودھ پلانا شروع کر دیا۔ اس موقعہ پر رسول اکرمؐ نے ایک عجیب سوال کیا کہ: کیا یہ ماں اپنے بچے کو آگ میں ڈالے گی؟ اصحاب نے جواب دیا، خدا کی قسم جہاں تک اس کا بس چلے گا، وہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالے گی۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اس ماں کی محبت سے زیادہ اللہ پاک اپنی مخلوق سے محبت کرنے والا ہے۔
خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر پیدا کیا ہے، کہا "مبارک ہے اس الله کو جس نے اس انسان کو بنایا ہے۔" میں اپنے گنہگار بندے کی توبہ کے انتظار میں ہوں: اے انسان سوچ کہ تم کس کے محبوب ہو اور کون تم سے محبت کرتا ہے۔ خداوند کریم فرماتا ہے کہ اس نے سب کچھ اپنے بندے کے لیے خلق کیا ہے، جو کچھ زمین میں خلق کیا ہے، وہ تمہارے لیے ہے۔ پھر خدا کی اپنے بندوں میں سے کچھ لوگوں کے ساتھ خاص محبت ہے۔ نبی اکرم کے تابع رہنے والوں سے خاص محبت ہے، پاک رہنے والوں سے خاص محبت ہے۔ خاص محبت کے لیے مصطفیٰ ؐکا پیروکار بننا پڑیگا، الله ان سے محبت کرتا ہے، جو پاک رہتے ہیں۔ پاک بنو گے خدا کی خاص محبت تمہیں ملے گی۔ گناہ کرکے خود کو خدا سے دور نہ کرو، گناہ نے تم کو دور کیا ہے، مگر توبہ کرکے واپس آجاؤ۔ خداوند کریم توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ الله پاک احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ خدا کی تو ہم سے محبت ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہماری بھی خدا سے محبت ہے۔؟!
اگر ہمارے اندر خدا سے محبت ہے تو یہ حسینی صفت ہے۔ خدا سے محبت حسینی صفت ہے، اگر ہے تو شکر کریں اور اسے بڑھائیں، اگر نہیں ہے تو اس کو اپنے اندر پیدا کریں۔ اس ماہ محرم میں محبت ِخدا پیدا کرنے کی کوشش کریں، اگر نہیں ہے تو امام حسینؑ کو وسیلہ بنائیں۔ انسان کمال سے محبت کرتا ہے۔ تمام کمال اللہ کی ذات میں ہیں، اس لیے تمام محبت بھی اسی سے ہونی چاہیئے۔ انسان جتنی الله کی صفتوں کی معرفت حاصل کرے گا، اسے اللہ کے کمالات معلوم ہونگے۔ خدا کے صفاتی ناموں پر غور کریں کہ کریم کیا ہے، رحیم کیا ہے؟ خدا کے 99 صفاتی نام ہیں، ان سب کی معرفت حاصل کریں۔ اگر دو صفات مل جائیں تو ایک نئی صفت بنتی ہے۔ غفور الرحیم کا مطلب ہے خدا معاف کرتا ہے مگر مہربانی کے ساتھ۔ جتنی خدا کی صفتوں کی معرفت بڑھے گی، اتنی خدا سے محبت بڑھےگی۔
جو شخص انسان پر احسان کرتا ہے، اس سے بھی محبت ہو جاتی ہے۔ اللہ کی نعمتوں اور احسانات کو یاد کریں، اللہ کی محبت دل میں پیدا ہوگی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موسیٰ کو وحی کی: اے موسیٰ ؑتم مجھ سے محبت کرو اور لوگوں کی دلوں میں میری محبت پیدا کرو۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا: میں تو محبت کروں، لوگوں کے دلوں میں کیسے پیدا کروں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: لوگوں کو میرے احسان اور نعمتیں یاد دلاؤ، ان کے دلوں میں میری محبت پیدا ہوگی۔ میری طرف سے انسانوں کے پاس خیر ہی خیر پہنچا ہے۔ ہو سکتا ہے، کوئی پوچھے کہ پھر عذاب کیا ہے؟ الله پاک کے فیض کا دریا تو جاری ہے مگر میں گناہ اور جرم کرکے کچھ رکاوٹیں ڈالتا ہوں، جس کی وجہ سے رحمت مجھ تک نہیں پہنچتی ہے، یہی عذاب ہے۔ انسان جو عمل انجام دیتا ہے اس کے تین اسباب ہیں۔۔۔۔
انسان نیکی کیوں کرتا ہے؟ پہلا، بدلے کی امید پر نیکی کرتا ہے۔ دوسرا آخرت کی ہمیشہ رہنے والی چیزوں کے لیے نیکی اور تیسرا نہ بدلہ کی امید نہ آخرت کے ادھار پر بلکہ صرف خدا کی محبت میں نیکی کرتا ہے۔ جب انسان محبت میں نیکی کرتا ہے تو بدلہ چاہتا ہی نہیں ہے۔ نہ دنیا میں نہ آخرت میں اور یہ بھی حسینی صفت ہے۔ کربلا میں امام حسینؑ نے راہ خدا میں کیا نہیں دیا۔؟ کیا سید شباب اہل جنت نے جنت کی لالچ میں دیا، حضرت حر جیسا مہمان دے دیا۔ محبت میں جو کام کرتا ہے، وہ بدلہ سرے سے چاہتا ہی نہیں ہے۔(استاد محترم سید حسین موسوی کی لاڑکانہ میں دوسری مجلس عزا سے ماخوذ(