صلح امام حسن (ع)  قیام امام حسین (ع) کی مانند اسلام کے تحفظ کا سبب بنی،آیت الله مدرسی

صلح امام حسن (ع) قیام امام حسین (ع) کی مانند اسلام کے تحفظ کا سبب بنی،آیت الله مدرسی

عراقی سیاست دان عراق کی نمو اور ترقی کے لئے حکمت عملی تیار کریں

صلح امام حسن (ع)  قیام امام حسین (ع) کی مانند اسلام کے تحفظ کا سبب بنی،آیت الله مدرسی

 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، عراق سے ،ممتاز عالم دین آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے عراقی علماء سے دینی اور ملکی مختلف امور میں حکیمانہ تدبیر اور اقدامات کئے جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ علماء جذبات اور حکمت کے مابین توازن قائم کریں۔

 

انہوں نے اپنی ہفتہ وار ٹیلیویژن سے نشر ہونے والی تقریر میں کہا کہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے معاشرے میں حکمت کو مستحکم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہوئے امام علیہ السلام نے امت کے درمیان حکمت قائم کی اور آپ کی صلح نے امام حسین علیہ السلام کے قیام کی مانند اسلام کو تحفظ اور اسلامی معاشرے کو تباہی سے بچایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا: الحسن والحسین علیہم السلام إمامان قاما أو قعدا.امام حسن اور امام حسین علیہما السلام دونوں امام ہیں ، خواہ قیام کریں یا نہ کریں۔

 

آیت اللہ مدرسی نے مزید کہا کہ دین اسلام میں دانشمندی کا حصول بہت ہی ضروری امر ہے تاکہ ہم مختلف حالات میں ایک مناسب پوزیشن لے سکیں اور ضرورت پڑنے پر حکمت یا جذبات اور احساسات کی طرف رجوع کرسکیں۔اندرونی صلح و امن و امان ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ " یااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّةً وَلاَتَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ."

ترجمہ: اے ایمان والو! سب کے سب صلح و آشتی میں داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو کہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 208، یہ مسئلہ امت کی بقا اور اس کے تسلسل کا ضامن ہے۔

عراقی ممتاز عالم دین نے اپنی تقریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ چالیس سال کی جنگوں سمیت مختلف آفات اور مشکلات کے بعد ، عراق کو اپنی طاقت دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اندرونی امن و سکون کی ضرورت ہے۔

انہوں نے بیان کیا کہ موجودہ صورتحال میں اپنے دشمنوں کے ساتھ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صلح سے مندرجہ ذیل نکات اخذ کیے جاسکتے ہیں:

 

 

1۔ تقریر میں متنازعہ اور تلخ الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے ،فحش الفاظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور اس کے بجائے تنقیدی اور اختلافی گفتگو میں اعلی اسلامی ادب کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

2۔ تمام عراقیوں کو ایک بلند مقصد کے حصول کیلئے کوشش کرنی چاہیے ، یعنی ایک ایسا مقصد جسے عراقی اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد سمجھے۔اس مقصد کو عراق کی تعمیر و ترقی ،سائنسی ، زرعی اور صنعتی شعبوں میں نمو اور ترقی میں بھی نمایاں ہونا چاہیے،کیونکہ عراق کو تمدن سازی اور تہذیبی امور میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر اس وقت محقق ہوگا جب تمام عراقی اس پر کام کریں گے۔ لہذا ، ہر ایک کو الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والی ، ثقافتی اور مذہبی تقاریر میں اس جذبے کو فروغ دینا چاہیے۔

 

عراقی سیاست دان عراق کی نمو اور ترقی کے لئے حکمت عملی تیار کریں

 

آخر میں ، آیت اللہ سید محمد تقی مدرسی نے عراقی سیاستدانوں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہ وہ عراقی تعمیر نو اور ترقی کے لئے حکمت عملی تیار کریں اور ابتدائی مراحل میں نہ رہیں ، کہا کہ یہ عراق کی سائنسی نمو ، زرعی اور صنعتی شعبوں کی ترقی ، افہام و تفہیم، باہمی تعاون پر مبنی غیر ملکی تعلقات کے قیام اور تنازعات سے بچنے کی کوششوں کے ذریعے ممکن ہے۔

ای میل کریں