سعودی عرب امریکہ کیلئے "دودھ دینے والی گائے" جبکہ امارات "دودھ دینے والی بکری" ہے، سید عبدالملک الحوثی

سعودی عرب امریکہ کیلئے "دودھ دینے والی گائے" جبکہ امارات "دودھ دینے والی بکری" ہے، سید عبدالملک الحوثی

سید عبدالملک الحوثی نے سعودی و اماراتی حکومتوں کو "احمق" قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ ممالک یمن پر جارحیت کا مکمل خرچ برداشت کریں

سعودی عرب امریکہ کیلئے "دودھ دینے والی گائے" جبکہ امارات "دودھ دینے والی بکری" ہے، سید عبدالملک الحوثی

 

اسلام ٹائمز۔ یمنی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک الحوثی نے یمن کے اسلامی انقلاب کی چھٹی سالگرہ کے حوالے سے قوم کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے مبارکباد دی اور یمنی معاملات میں امریکہ کی بڑھتی مداخلت پر سخت تنقید کی۔ عرب نیوز چینل المسیرہ کے مطابق سید عبدالملک الحوثی نے 21 ستمبر 2014ء کے روز یمن میں کامیاب ہونے والے اسلامی انقلاب کے حوالے سے اپنے خطاب کے اندر ہر میدان میں یمن کو حاصل ہونے والی روز افزوں کامیابیوں اور انقلاب اسلامی کی چھٹی سالگرہ پر پوری قوم کو مبارکباد دی اور 21 ستمبر کے روز کو یمن کے اپنے گذشتہ تاریک ماضی سے باہر قدم رکھنے اور شاندار مستقبل کی جانب قدم بڑھانے کا آغاز قرار دیا۔ انہوں نے آزادی اور خود مختاری کو اسلامی انقلاب کا اعلیٰ ترین ہدف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان اہداف سے قبل یمنی عوام استعمار اور پسماندگی میں گھر کر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

سربراہ انصاراللہ یمن نے اپنے خطاب میں یمن کے اندر بڑھتی امریکی مداخلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سال 2014ء سے قبل تک یمن کے خداداد تزویراتی محل وقوع اور ثروت کو استعمارانہ نظروں کے ساتھ دیکھا کرتے تھے اور یہ جان چکے تھے کہ اگر یمنی عوام آزاد ہوگئے تو امتِ مسلمہ کے اندر عالمی سطح پر انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُس نے 21 ستمبر کے انقلاب کے بعد سے یمن کے اندر اپنی مداخلت کو بہت زیادہ بڑھا کر ملک کو خانہ جنگی میں دھکیل رکھا ہے۔ سید عبدالملک الحوثی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے یمن کو پوری طرح سے دیوالیہ پن کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا تھا اور اگر 21 ستمبر کا انقلاب کامیاب نہ ہوتا تو یمن مکمل طور پر بکھر چکا ہوتا۔

 

انہوں نے خطے کے اندر موجود امریکی چیلوں کے معاندانہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سخت اقتصادی صورتحال (مسلط کی جانے والی) وسیع جنگ اور (سخت ترین سرحدی) محاصرے کا نتیجہ ہے، جس کے باعث ایندھن کو ملک میں داخل ہونے دیا جاتا ہے اور نہ ہی تیل سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو جبکہ صنعاء کی موجودہ حکومت نہ صرف تیل، سرحدی گزرگاہوں اور سمندر کی آمدنی سے محروم ہے بلکہ (جارح) سعودی اتحاد نے (یمنی) مرکزی بینک کی سرگرمیوں کو روک کر قومی کرنسی کے خلاف بھی سازشوں کا بازار گرم رکھا ہے۔ یمنی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ نے اپنے خطاب میں متحدہ عرب امارات و بحرین کی جانب سے غاصب صیہونی دشمن کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کئے جانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر سعودی عرب امریکہ کے لئے "دودھ دینے والی گائے" ہے تو امارات اس کے لئے حتمی طور پر "دودھ دینے والی بکری" ہے۔

 

سید عبدالملک الحوثی نے سعودی و اماراتی حکومتوں کو "احمق" قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ ممالک یمن پر جارحیت کا مکمل خرچ برداشت کریں جبکہ تمام کے تمام اقدامات امریکی مفاد کے لئے اٹھائے جائیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب، امارات، بحرینی آل خلیفہ اور سوڈان کے تمام کے تمام اقدامات نہ صرف امریکہ و اسرائیل کے فائدے میں ہیں بلکہ خود ان کے لئے دنیا و آخرت میں بُرے انجام کے حامل بھی ہیں۔ سید عبدالملک الحوثی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ وہ (اسرائیل دوستی کے) اس گھناؤنے اقدام کو "صلح" کا عنوان دیتے ہیں، گویا کہ بحرینی عوام پر ظلم و ستم روا رکھنے والی آل خلیفہ کی حکومت نے اسرائیلی چوکیوں کے خلاف شدید کارروائی شروع کر رکھی تھی یا وہ قدس کی جنگِ آزادی میں شریک تھی اور گویا کہ امتِ مسلمہ کے خلاف نت نئی سازشیں کرنے والی اماراتی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ شدید جنگ چھیڑ رکھی تھی اور اب ٹرمپ نے مداخلت کرتے ہوئے صورتحال کو پرامن بنا دیا ہے۔

 

انہوں نے اپنی گفتگو میں سوال اٹھایا کہ کیا وائٹ ہاؤس کے اندر بیٹھ کر (اسرائیل کے ساتھ) دوستی معاہدوں پر دستخط کرنے والوں نے خود سے پوچھا ہے کہ کیا انہوں نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر "اسرائیل کو صلح پر مجبور" کیا ہے؟ درحالیکہ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طاقت ان معاہدوں کی موجب بنی ہے۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ (غاصب صیہونی دشمن کے ساتھ) دوستی کے حامی ممالک دو عرب و مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد کو جرم اور حرام سمجھتے ہیں، درحالیکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ایک (دینی) فریضہ ہے جبکہ انصاراللہ اور مزاحمتی محاذ، امریکی استکبار اور اسرائیلی دشمن کے مقابلے میں واحد موقف کی حامل متحدہ امتِ مسلمہ کے اٹھ کھڑے ہونے کو (دینی و اخلاقی) وظیفہ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں جارح سعودی فوجی اتحاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گذشتہ 2,000 روز سے مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے درحالیکہ ہم نہ صرف مزید 2,000 روز کے لئے بھی مزاحمت کرنے کو تیار ہیں بلکہ اس کے بعد کے دو ہزار روز اور اس کے بعد کے دو ہزار روز کے لئے بھی مکمل طور پر تیار ہیں اور اپنے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔

ای میل کریں