غاصب صہیونی رژیم کے ہاتھوں مسجد اقصی کی بے حرمتی کی 51 ویں سالگرہ
تحریر: رامین حسین آبادیان
21 اگست 1969ء کا دن تھا۔ غاصب صہیونی رژیم کے ہرکاروں نے تمام تر انسانی اور دینی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام الہی ادیان کی نظر میں مقدس مقام اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی کو نذر آتش کر دیا۔ آج صہیونیوں کے اس مجرمانہ اقدام کو 51 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ واقعہ بیت المقدس پر صہیونی قبضے کے دو سال بعد پیش آیا۔ اس افسوسناک واقعہ کے بعد واضح ہو گیا تھا کہ صہیونیوں کا اصل مقصد مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں سے اسلام کے مقدس مقامات کو نابود کرنا ہے۔ مقبوضہ فلسطین پر قبضے کے بعد غاصب صہیونی رژیم نے اسلامی آثار قدیمہ اور مقدس مقامات کو نابود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی قسم کی کوششوں کا ایک حصہ مسجد اقصی کو نذر آتش کرنا تھا۔
6 جون 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں صہیونی قوتیں بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قابض ہو گئیں۔ مسجد اقصی کو لگائی جانے والی آگ میں اس مسجد کا چھت مکمل طور پر جل کر راکھ ہو گیا جس کا رقبہ دو سو میٹر مربع تھا۔ گنبد پانچ جگہوں سے جل گیا۔ اسی طرح مسجد کے اندر ایک 800 سالہ قدیمی منبر بھی پڑا تھا جو جل کر راکھ ہو گیا۔ صہیونیوں کے اس اقدام کی بہت سے ممالک نے مذمت کی لیکن عمل کے میدان میں کوئی بھی ملک مقبوضہ فلسطین میں اسلام کے مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے آگے نہ آیا۔ مسجد اقصی کو نذر آتش کئے جانے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس منعقد کیا۔ اس اجلاس کے نتیجے میں 1969ء میں سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 271 منظور کر لی گئی۔
یہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کی گئی اور اس میں اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مذمت کی گئی۔ اسی طرح اس قرارداد میں غاصب صہیونی حکام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کوئی ایسا اقدام انجام نہ دیں جس سے بیت المقدس کا تشخص تبدیل ہوتا ہو۔ اس وقت بھی امریکہ سمیت چار ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا۔ سلامتی کونسل کی اس قرارداد میں آگ لگنے کے نتیجے میں مسجد اقصی کو پہنچنے والے بہت زیادہ نقصان پر اظہار افسوس کیا گیا تھا اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ یہ واقعہ انسانی تہذیب کو شدید نقصان پہنچنے کا باعث بنا ہے۔ اس عظیم سانحے پر اقوام متحدہ کا ردعمل محض اسی ایک قرارداد تک محدود تھا اور اس عالمی ادارے نے صہیونی رژیم کے مقابلے میں فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت اور اسلامی مقدس مقامات کی حفاظت کیلئے کوئی موثر اقدام انجام نہ دیا۔
آج اس مجرمانہ اقدام کو اکیاون برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران ہر سال اس موقع پر فلسطینی بھرپور انداز میں مظاہروں کا انعقاد کر کے اس دن کی یاد تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کا یہ اقدام دنیا والوں کیلئے یہ اہم پیغام لئے ہوئے ہے کہ مسجد اقصی ان کیلئے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ فلسطینی ہر سال دنیا کو مسلمانوں کے اس مقدس مقام کی غاصب صہیونی رژیم کے ہاتھوں بے حرمتی یاد کرواتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غاصب صہیونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات صرف مسجد اقصی کو نذر آتش کرنے تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے بعد بھی اس ظالم رژیم نے قدس شریف کو یہودیانے کی منظم کوششیں جاری رکھی ہیں۔ صہیونی رژیم قدس شریف کا اسلامی تشخص ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس مقصد کیلئے مسجد اقصی کے نیچے کھدائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
صہیونی حکام ایک عرصے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ قدس شریف کا حقیقی تشخص یہودی اور اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ آج تمام دنیا والوں پر یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ قدس شریف کا تعلق مسلمانوں سے ہے اور یہودیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بارے میں متعلقہ بین الاقوامی ادارے کئی بار مسلمانوں کے حق میں قراردادیں بھی منظور کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تعلیم اور ثقافت سے متعلق ادارے یونیسکو نے 2016ء میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے مطابق اعلان کیا گیا کہ قدس شریف خاص طور پر مسجد اقصی کا یہودیوں کی تاریخ اور ثقافت سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ قدس شریف کا شمار مسلمانوں کے مقدس مقامات میں ہوتا ہے۔
آج مسجد اقصی کو نذر آتش کئے جانے کے افسوسناک واقعے کو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی اس مقدس مقام کے اردگرد صہیونی فوجی تعینات ہیں۔ مسجد اقصی کے نیچے صہیونی رژیم نے لمبی لمبی سرنگیں کھود رکھی ہیں جن سے اس مسجد کی بنیادیں خطرے کا شکار ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف اسلامی دنیا کے حکمرانوں نے نہ صرف اسرائیل کے ان مجرمانہ اقدامات پر چپ سادھ رکھی ہے بلکہ اس سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ مسجد اقصی گذشتہ نصف صدی سے غاصب صہیونی رژیم کے کینہ توزانہ اقدامات کی آگ میں جل رہی ہے۔ جب تک تمام اسلامی ممالک مل کر غاصب صہیونی رژیم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اس کے یہ مجرمانہ اور گستاخانہ اقدامات جاری رہیں گے۔