خانہ خدا

خانہ خدا کے زائرین کی دردناک شہادت

حج پر جانے والے اسلامی تعلیمات اور قرآن کریم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہر سال اسلام کے دشمنوں بالخصوص امریکہ اور صہیونسٹ سے اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں

خانہ خدا کے زائرین کی دردناک شہادت

 

ذی الحجہ کی 6/ تاریخ ان زائرین کی مظلومانہ اور دردناک شہادت کی تاریخ ہے۔ کیونکہ سن 1407 ھ ق کو ہزاروں ایرانی زائین کو شہید کرادیا گیا تھا۔ مذکورہ تاریخ کو ایران اور دیگر اسلامی ممالک سے خانہ خدا کی زیارت کو ہزاروں مسلمانوں نے مشرکین سے برائت کا اظہار کیا تو سعودی عرب کی ظالم اور وہابی نیز امریکہ اور اسرائیل کی کٹھپتلی حکومت سے برداشت نہ ہوا اور ہزاروں زائرین کے خون سے ہولی کھیل ڈالی۔

حج پر جانے والے اسلامی تعلیمات اور قرآن کریم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہر سال اسلام کے دشمنوں بالخصوص امریکہ اور صہیونسٹ سے اپنی برائت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ جو اسلام اور قرآن اور اللہ و رسول کو مانتا ہے وہ اپنے اس الہی اور دینی فریضہ پر عمل کرے گا اور اگر وہ کرتا ہے تو ان نام نہاد اور ظاہری مسلمانوں کے دل میں کیوں درد اٹھتا ہے، انھیں کیوں بے چینی ہوتی ہے؟ یہ ان کی گھبراہٹ اور اسلام مخالف سازش کا پتہ دیتا ہے جبھی تو انہوں نے اللہ و رسول کے دشمنوں سے بیزاری کرنے کے جرم میں بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ ان مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کردیا۔ اس طرح کا کام کیا کوئی مسلمان کرسکتا ہے؟ کیا کوئی سچا مسلمان قرآن اور رسولخدا (ص) کے حکم کی خلاف ورزی کرسکتا ہے؟

یہ بہت ہی افسوسناک واقعہ ہے کہ سرزمین وحی پر اللہ و رسول کا نام لینے والوں نے خدا کے بندوں پر گولیاں چلوادیں۔ امریکہاور اسرائیل کی خوشامد میں آل سعود نے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگین کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خانہ امن الہی میں 400/ ایرانی حجاج شہید ہوئےاور ہزاروں زخمی ہوئے۔ زائرین پر حملہ بتارہا ہے کہ یہ لوگ اس ملک میں حرمین شریفین کی خدمت کے لائق نہیں ہیں اور انہوں نے صرف اسلام کی نقاب ڈال کر اندر سے اسلام کو کھوکھلا اور نابود کرنے کی ہر روز ایک منصولہ بندی کرتے اور سازش رچتے ہیں۔

اگر مسلمان مشرکوں سے برائت کرتا ہے تو آل سعود کو برا کیوں لگتا ہے؟ ان کا کیا بگڑتا ہے؟ کیا یہ خود کو مسلمان نہیں کہتے؟ کیا ان کا فریضہ نہیں ہے کہ یہود نصاری اور دنیا کے تمام مشرکوں سے برائت کریں اور اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں، قرآن پر عمل کرنے کا عملی اقرار کریں؟

ان کی ہمیشہ کی اسلام مخالف پالیسیوں اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف ان کی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے یہ خود مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ مسلمانوں کے دوست ہیں یا دشمن، یہ اسلام کی آفاقی شان و شوکت اور جلوہ دیکھنا چاہتے ہیں یا امریکہو اسرائیل کی غلامی اور نوکری پسند کرتے ہیں۔

ذی الحجہ کی 6/ تاریخ کو مکہ کے در و دیوار اور آسمان کے ملائکہ حجاج کے ہم آواز ہوکر مشرکوں سے برائت کا نعرہ لگاتے ہیں، امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کہتے ہیں اور برا آل سعود کو لگتا ہے۔ مذکورہ تاریخ کو یہی فریضہ ادا کررہے تھے اور مسلمانوں کی آواز اور نعروں سے عرب اور عجم سب حیران تھے۔

حضرت امام خمینی (رح) کا تاریخی پیغام سن کر "اللہ اکبر"، "لا الہ الا اللہ" اور امریکہ اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے مغرب کی نماز پڑھ کر حرم کی طرف روانہ ہو رہے تھے کہ آل سعود کے کارندے آتے ہیں اور اچانک زائرین پر حملہ کردیتے ہیں اور بندوق کی نوک سے ایرانی زائرین کے سر اور چہرہ کو کوٹ ڈالا، اسی طرح دوسرا گروہ پتھر مارنے لگا اور زائین خون میں نہاگئے۔ یہ اسلامی حکومت کے مسلمان حکمرانوں کا حل ہے۔ اس ناپاک حرکت سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو نہ اسلام سے کوئی مطلب ہے اور نہ قرآن کے فرمان سے اور نہ ہی انسانیت کی کوئی فکر ہے۔ کیا دنیا میں کسی کو مردہ باد کہنے کی سزا موت ہے؟ ہرگز نہیں۔

جمہوری اسلامی ایران کے بانی اور اسلامی اور انسانی انقلاب کے عظیم رہنما و رہبر حضرت امام خمینی (رح) نے پیغام دیا کہ ہم لوگ اس روح فرسا اور غم انگیز حادثہ سے بیحد دکھی ہیں اور ہمارے لئے جانکاہ صدمہ ہے؛ کیونکہ یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ امت مسلمہ اور محمد (ص) و ابراہیم (ع) کی ماننے والوں اور قرآن پر عمل کرنے والوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا جائے گا اور ایسی بے رحمی کے ساتھ انہیں خاک و خون میں غلطاں ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس کے باوجود ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کے اس سیاہ کارنامے سے اسلام کو قوت ملی اور اس کی تبلیغ ہوئی اور ہماری قوم و ملت کی مظلومیت اور آل سعود کی درندگی ظاہر ہوئی اور ان کی ایسی ہی ناپاک حرکتوں سے ہمارے مکتب اور ملک کی ترقی اور بلندی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

ای میل کریں